بھارت کے آئندہ عام انتخابات قومی و علاقائی حالات پر اثر انداز ہوں گے: آئی پی ایس گول میز کانفرنس

اسلام آباد(صباح نیوز)رواں عرصے میں کئی جنوبی ایشیائی ممالک میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ان میں سے خصوصا بھارت کے انتخابی نتائج اس کی ملکی صورتحال اور پورے خطے کی حرکیات پر اثر انداز ہوں گے۔ قابلِ تشویش امر یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریں مسلسل تیسری بار حکومت حاصل کرنے پر مرکوز ہیں، جس کے ممکنہ اثرات ہندو بنیاد پرستی میں مزید اضافے، جمہوری اقدار کی پامالی اور قانون کی حکمرانی پر سمجھوتے کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نتائج نہ صرف علاقائی حرکیات پر اثر انداز ہوں گے بلکہ پڑوسیوں کے ساتھ روابط کو نئی رخ بھی دیں گے۔اس بات کا مشاہدہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں ‘ہندوستان میں جمہوریت: نئی حرکیات اور ارتقا کا منظرنامہ’ کے عنوان سے منعقدہ ایک گول میز کانفرنس کے دوران کیا گیا ۔ یہ گول میز مذاکروں کے اس سلسلے کی پہلی نشست تھی جو بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے اقتدار کی دہائی کے دوران میں رونما ہونے والی سماجی وسیاسی زبردست تبدیلیوں  اور حکومتی پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے۔ مذاکروں کے اس سلسلے میں بھارت کے آئندہ عام انتخابات کے پس منظر میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں بھارتی سیاست، سماج اور خطے میں بھارت کے کردار کے ممکنہ رجحانات کیا ہوں گے۔

آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمن کی زیر صدارت ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس سے بھارتی سیاست کے ماہر  اورقائدِ اعظم یونیورسٹی کے  سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز (ایس پی آئی آر) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر مجیب افضل، مصنف اور تجزیہ کار ڈاکٹر فاروق عادل ، صحافی افتخار گیلانی، سابق سفیر اور آئی پی ایس کے وائس چیئرمین سید ابرار حسین، اور آئی پی ایس کے مشیر برائے ریسرچ اینڈ اکیڈمک آوٹ ریچ پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام سمیت قانونی ماہرین، اسکالرز اور صحافیوں نے خطاب کیا۔مقررین نے کہا کہ بھارت میں تعصب پر مبنی آئینی تبدیلیاں اس کے سیکولر ریاست سے ہندو ریاست کی جانب سفر کا اشارہ دیتی ہیں۔  ہندو قوم پرستی کے سیاسی و سماجی غلبے نے قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا آمرانہ نوکر شاہی کا ڈھانچہ تشکیل پا رہا ہے جس کا فائدہ ہندو انتہا پسند اٹھائیں گے۔ ڈاکٹر مجیب افضل نے کہا کہ ہندوستانی آئین جو ابتدائی طور پر قومی تنوع کا محافظ تھا، رفتہ رفتہ اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی پر سمجھوتے ہو رہے ہیں۔ یہ سب ہندو انتہا پسندی کے زیرِ اثر ہوا ہے جس نے آئینی مکالمے اور آئین کی تشریح کو ایک ایسی شکل دے دی ہے جو آئینی ڈھانچے کی سیکولر شناخت کو چیلنج کر رہی ہے۔ دھرم کے تصور پر مبنی جغرافیائی اور تہذیبی پہلو آئین کی تشریح اور اطلاق پر نمایاں انداز میں اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دھرم کی اس سیاست کے کلیدی مظاہر میں آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی اور رام مندر کی تعمیر شامل ہے، جو بی جے پی کے منشور میں نمایاں طور پر شامل تھے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان معاملات میں عدلیہ کا کردار افسوسناک حد تک جانب دارانہ رہا ہے۔ڈاکٹر مجیب افضل نے کہا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو یہ ہندو نقطہ نظر کی طرف مزید جارحانہ انداز میں جھک سکتا ہے۔

ان خیالات کی توثیق ڈاکٹر فاروق عادل نے بھی کی جنہوں نے 2023 میں بھارت میں اقلیتوں کی نازک حالت کے بارے میں باراک اوباما کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کو دباو کا سامنا ہے ۔ وہ اعتماد کے فقدان کا شکار ہیں، اور ریاست اور ریاستی اداروں کی سرپرستی سے محروم ہیں۔ ایسی صورتحال کا تسلسل ہندوستان کی قومی  ہم آہنگی اور تکثیریت کو واضح طور پر متاثر کر رہا  ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ اس بیانیے کو فروغ دے رہا ہے جو اکثر جمہوری اقدار کے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔فاروق عادل نے کہا کہ موجودہ صورتحال ہندوستان میں معاملات کی پیچیدہ صورت حال کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے، جس میں اقلیتوں کے حقوق کو درپیش چیلنجز، انتہا پسندانہ نظریات کی طرف جھکاو، ذرائع ابلاغ کی آزادی پر سمجھوتہ، اہم اداروں پر عدم اعتماد، اور ایک آمرانہ رجحان کا ابھرنا شامل ہے، جس کے ملک کے جمہوری بندوبست پر اثرات ہوں گے۔افتخار گیلانی نے کہا کہ ہندوستان کی سیاست پر اعلی ذات کے ہندووں کا غلبہ ہے ۔

 انتہا پسند ہندو  انتخابی مقصد کے لیے جان بوجھ کر گائے کے تحفظ، مسلمانوں کے ساتھ تنازعات اور پاکستان کے ساتھ روایتی دشمنی کو ہوا دیتے ہیں۔ جیسے جیسے 2024 کے انتخابات قریب آرہے ہیں، بنیاد پرست عناصر مسلمانوں کے ساتھ تنازعات کو مزید بھڑکا  رہے ہیں۔سید ابرار حسین نے کہا کہ ان حالات میں ہندوستان بتدریج ایک سیکولر ریاست سے ایک ہندو ریاست یا غیر ہندووں کی دشمن ریاست کا روپ دھار رہا ہے، جہاں ہندو شناخت اور نظریے پر زور مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی بنیاد ہے۔اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے کے اندر پائے جانے والے تضادات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، تاہم اس میں جمہوریت کے جوہر اورجمہوری اقدار کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان عالمی سطح پر جو بیانیہ تشکیل دیتا ہے اس  میں سیکولرازم اور