پاکستان میں انتخابات کی گہما گہمی شروع ہوگئی ہے۔ جن دوستوں کو انتخابات کے انعقاد پر ابہام تھا۔ مجھے امید ہے کہ ان کا ابہام بھی دور ہو گیا ہوگا۔
امیدواران کے کاغذات کی جانچ پڑتال چل رہی ہے۔ جن کے منظور ہو گئے ہیں وہ اب ٹکٹوں کے انتظار میں ہیں۔ جن کے نا منظور ہوئے ہیں وہ عدالتوں سے ریلیف لینے کے چکر میں ہیں۔ بہرحال سیاسی جماعتیں ابھی چند دنوں میں اپنے اپنے امیدواران کو ٹکٹیں بھی دے دیں گی۔ اس لیے انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے۔
نوے فیصد حلقوں میں کس کو کس جماعت سے ٹکٹ ملنا ہے یہ طے ہی ہے۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ دس فیصد حلقوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے کچھ مہم رکی ہوئی ہے۔ لیکن وہاں بھی امیدواران کے ڈیرے آباد ہو گئے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ اگلے دس دن میں انتخابی مہم عروج پر پہنچ جائے گی۔ حلقوں میں سیاسی جلسے اور کارنر میٹنگ شروع ہو جائیں گی۔ سیاسی جماعتیں اور امیدواران ووٹ مانگنے نکل پڑیں گے۔
میں سمجھتا ہوں 2024 کے انتخابات میں پاکستان کے ووٹرز کو بہت سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالنا ہوگا۔ کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ اس انتخابات کے نتیجے میں بھی کسی ایک جماعت کی حکومت بننا مشکل ہے۔
اس لیے جب دوست مخلوط حکومت دیکھ رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ مخلوط پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ووٹر کو سمجھنا ہوگا کہ اسے مل کر کسی ایک جماعت کو مینڈیٹ دینا ہے تا کہ وہ جماعت پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لیے مکمل طور پر ذمے دار بن سکے۔
مخلوط حکومت میں کوئی ذمے دار نہیں ہوتا۔ سب ہی بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ مخلوط حکومت تھی ہم اکیلے کیسے ذمے دار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے ووٹر کو اس بات کو سامنے رکھنا ہوگا کہ پاکستان اب کسی مخلوط حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
میں مخلوط حکومت کے خلاف نہیں ہوں۔ جمہوریت میں مخلوط حکومت کی گنجائش موجود ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مل کر ملک کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ جب ایک جماعت کے پاس مکمل حکومت آجاتی ہے تو وہ سیاسی حکومت فاشسٹ حکومت بننے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ کسی کو جوابدہ ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر پارلیمنٹ کو بلڈوز کرتی ہے۔
وہ مشاورت کو ختم ہی کر دیتی ہے۔ وہ اپوزیشن کی بات نہیں سنتی۔ اسے کسی کا کوئی ڈر ہی نہیں رہتا۔ وہ اکیلے ہی حکومت کرتی ہے۔ جس سے ملک میں جمہوریت کے بجائے بادشاہت کا تاثر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی دیکھیں کہ مخلوط حکومت چوں چوں کا مربہ بن جاتی ہے۔ ایک دن ایک ناراض ہو گیا تو دوسرے دن دوسرا ناراض، سب کو خوش رکھنے کے چکر میں عوام کے لیے کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ پھر کوئی ذمے دار بھی نہیں بنتا۔
آپ دیکھیں گزشتہ مخلوط حکومت کی دوسری بڑی پارٹی جس کے پاس وزیر خارجہ کا عہدہ بھی تھا وہ اپنی مخلوط حکومت کی کارکر دگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہی نہیں۔ تیسرے بڑی جماعت جس کے پاس بھی وزارتیں تھیں وہ بھی کہتی نظر آتی ہے کہ ہم تو عدم اعتماد کے ہی خلاف تھے۔
اس لیے ہم اس کے نتیجے میں بننے والی مخلوط حکومت کے ذمے دار نہیں ہیں۔ حالانکہ سب کو مل کر ذمے داری لینی چاہیے۔ جب سب نے حکومت کے مزے لیے ہیں تو سب کو مل کر ذمے داری بھی لینی چاہیے۔
یہ صرف پی ڈی ایم کا ہی رویہ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین جو اب بانی بن چکے ہیں۔ جو تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر اعظم تھے۔ وہ بھی اپنی حکومت کی چار سال کی کارکردگی کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
وہ بھی یہی کہتے تھے کہ سارا وقت اتحادیوں کو منانے میں گزر گیا۔ حالانکہ پی ڈی یم کے مقابلے میں ان کی ایک مضبوط حکومت تھی۔ان کی حکومت کا عددی اعتبار سے چھوٹی سیاسی جماعتوں پر انحصار تھا۔ جن کا حکومت میںحصہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن وہ بھی کہتے نظر آئے کہ پورا مینڈیٹ نہیں تھا اس لیے کام نہیں کر سکے۔
جو بھی کرنا چاہتے تھے اتحادی نہیں مانتے تھے۔ حالانکہ ان کے دور میں اپوزیشن کو دیوار سے لگایا ہوا تھا۔ ان کے سامنے ایک کمزور اپوزیشن تھی۔ لیکن پھر بھی مخلوط حکومت کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ انھیں کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔
صرف پیپلزپارٹی ایک جماعت ہے جو آج بھی چاہتی ہے کہ ملک میں اگلے انتخابات کی نتیجے میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جائے۔ وہ ایک ایسی پارلیمنٹ کی خواہش کرتے نظر آرہے ہیں جس میں کسی کے پاس بھی مکمل اکثریت نہ ہو۔ اس لیے وہ حکومت بنانے کے لیے ان کا محتاج بن جائے۔ اسی لیے وہ یہ نہیں کہتے کہ وہ اگلی حکومت بنائیں گے۔
بلکہ وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کوئی بھی ان کے بغیر حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ جس کے ساتھ وہ شامل ہونگے وہ حکومت بنائے گا۔ اب کوئی ان سے سوال کرے کہ جب آپ کسی کے ساتھ ملکر دوبارہ حکومت بنائیں گے تو پھر اس حکومت کی کارکردگی کے ذمے دار نہیں ہوں گے۔
بس حکومت کے مزے لیں گے اور پھر کہیں گے کہ ہماری حکومت تو تھی ہی نہیں۔ اگر وزارت عظمی پیپلزپارٹی کو دے بھی دی جائے تو ان کے پاس ووٹ تو پورے نہیں ہونگے۔ پھر بھی وہ کیسے کام کریں گے۔ بڑی جماعت اپنے ووٹوں پر ان کو حکومت کیسے کرنے دے گی۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔
اس لیے ووٹر کو یہ بات سمجھنی ہے کہ اس نے ووٹ پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے دینا ہے۔ اس لیے ایسے ووٹ دیں کہ کوئی ایک ذمے دار بن جائے۔ صرف ووٹر ہی پاکستان میں مخلوط حکومت کا راستہ روک سکتا ہے۔ سیاسی تقسیم کو ختم کر سکتاہے۔
اسے اپنی سیاسی سوچ نہیں پاکستان کے مسائل کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا چاہیے۔ کون پاکستان کی کشتی کو اس منجھدار سے نکال سکتا ہے۔
کون معاشی مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ سیاسی مسائل کا حل کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ زیادہ بڑا مسئلہ معاشی مسائل اور معاشی بحران ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ معاشی بحران میں مخلوط حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ تمام زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دیں۔ کچھ دوست کہیں گے انتخابات کون سے شفاف ہو رہے ہیں۔ ووٹ سے کیا ہوگا۔
ایک جماعت کو روکا جا رہا ہے۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ زمینی حقائق اپنی جگہ موجود ہیں۔ ہم اور آپ فی الوقت اس کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ووٹ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی دیا جاتا ہے۔
اس لیے جو سامنے ہے اس کو دیکھ کر ووٹ دیں۔ میں سمجھتا ہوں جو سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے جیتنے کے امکانات ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو مکمل مینڈیٹ دیں تا کہ وہ اپنی مکمل حکومت بنا سکے۔ چوں چوں کا مربہ حکومت بننے کا راستہ روکنا ہوگا۔ یہی پاکستان کے معاشی بحران کا حل ہے۔ ایک ذمے دار ہوگا۔ ایک سے سوال ہوگا۔ ایک ہی جوابدہ ہوگا۔
اس لیے بڑے صوبوں کے ووٹرز کی زیادہ بڑی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے ووٹ دیں کہ مخلوط حکومت کا راستہ رک جائے۔ پنجاب مخلوط حکومت کا راستہ روک سکتا ہے۔
کے پی اور سندھ بھی مخلوط حکومت کا راستہ روک سکتے ہیں۔ بلوچستان میں بے شک سیٹیں کم ہیں لیکن وہاں سے بھی جس جماعت کو سیٹیں ملتی ہیں وہ اس کی عددی اکثریت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس لیے ووٹر کو مخلوط حکومت کا راستہ روکنا ہے۔ یہی ہدف ہونا چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس