اطالوی فلاسفر میکاولی آج کل تضادستان میں مصروف عمل ہے اس کی بغل میں ’’دی پرنس‘‘ ہے اور وہ جگہ جگہ یہ سمجھا رہا ہے کہ طاقت کی اخلاقیات نہیں ہوتی وہ کہتا پھر رہا ہے کہ سیاسی عمل کو روایتی اخلاقیات کی حدود تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔اس کا کہنا ہے کہ سیاست کا اصل مقصد طاقت اور اختیار حاصل کرنا ہے، اس کا کہنا ہے کہ انسان بنیادی طور پر خود غرض اور مقابلہ باز ہے اور اسے اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ انارکی پھیلاتا ہے، انسانوں کو کنٹرول کرنے کے لئے طاقت اور اختیار ضروری ہیں۔
تضادستان میں جونہی خبر اڑی کہ میکاولی آیا ہوا ہے ہر کوئی اپنا اپنا مسئلہ لے کر اس کےپاس پہنچا۔ کھلاڑی خان کا پیغام رساں اقتدار تک پہنچنے کا فارمولا سمجھنا چاہتا تھا، حکیم میکاولی نے اسے سمجھایا کہ سیاست دان فوج سے لڑ کر کبھی نہیں جیت سکتا، بادشاہ کا صرف ایک ہی کام ہوتا ہے کہ وہ عسکری خان سے بنا کر رکھے،عسکری خان سے جب بھی بادشاہ کی لڑائی ہوئی تو تاریخ گواہ ہے کہ بغاوت ہو جاتی ہے اور بادشاہ کا سرقلم ہو جاتا ہے۔ پیغام رساں نے پوچھا کہ اب کیا کیا جائے؟ میکاولی نے اپنی نظر کی عینک نیچے کرکے اسے براہ راست دیکھتے ہوئے جواب دیا اڑنا اور ضد کرنا مسائل کا حل نہیں اقتدار لچک سے ملتا ہے ، ضد کرنے والے ٹوٹ جاتے ہیں، لچک دکھانے والے تخت پر بیٹھتے ہیں۔ پیغام رساں نے پوچھا ہماری سختیاں کیسے ختم ہوں گی۔ میکاولی نے جھٹ سے جواب دیا آپ کے رویئے بدلنے سے ہی عسکری خان کا موقف بدل سکتا ہے۔
کھلاڑی خان کا پیغام رساں رخصت ہوا تو نونی خان اپنا مسئلہ حل کروانے آگیا۔ نونی خان نے میکاولی کو کہا کہ اس کے خلاف سازشیں شروع ہیں عدالت خان اور عسکری خان آمنے سامنے ہیں۔ عسکری خان جیت گیا تب بھی ہمیں اقتدار ملنے کا چانس کم ہو جائے گا اور اگر عدالت خان جیتتا ہے تو وہ کھلاڑی خان کو مضبوط کرکے الیکشن میں ہمارے لئےمشکلات کھڑی کردے گا، ہم مخمصےمیں ہیں کہ کس کی حمایت کریں اور کس کی مخالفت۔ ویسے زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ ہم عسکری خان کے ساتھ رہیں کیونکہ اصلی طاقت تو اسی کےپاس ہے۔ حکیم میکاولی نے نونی خان کی ساری رام کہانی غور سے سنی اور کہا آپ پہلے یہ تو فیصلہ کرلیں کہ آپ عدالت خان کو ہدف بنانا چاہتے ہیں یا عسکری خان کو۔ آپ کی گو مگو کی پالیسی پہلے بھی لے ڈوبی تھی اب بھی پیغام واضح نہیںہو رہا۔ بہتر تو یہی تھا کہ مفاہمت کے راستے پر چلتے لیکن آپ نے اقتدار کی چکا چوند میں سیاسی بیانیہ قربان کردیا، اب آپ کےپاس ایک ہی راستہ ہے کہ عسکری خان کے ساتھ جڑ جاؤ یہ الگ بات ہے کہ اقتدار مل بھی گیا تو اختیار نہیں ملے گا اور اگر عدالت خان نے لیول پلینگ فیلڈ کروا دی تو الیکشن نہیں جیتا جائے گا۔ حکیم میکاولی نے نونی خان کو سمجھایا آپ کو دوست اور دشمن کی تمیز کرنا ہوگی اچھی طرح سوچ کر کسی کو دشمن یا دوست بنائیں کھلاڑی خان کی طرح روز روز نئے یوٹرن نہ لیں۔
میکاولی کی شہرت عدالت خان اور عسکری خان تک پہنچ چکی ہے دونوں باری باری اپنے مسائل لے کر فلاسفر اقتدار وطاقت کےپاس پہنچے، عسکری خان نے کہا کہ ہم جسے باغی سمجھتے ہیں عدالت خان اسے معصوم قرار دے رہا ہے ایسے میں ریاست کیسے چلے گی۔ میکاولی نے عسکری خان کو کہا کہ طاقت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی آپ پی سی او لگا کر عدالت خان کوفارغ کردو، خود سامنے بھی نہ آؤ، سویلین چہرے ہی سامنے آئیں وہی پی سی او لگائیں ، آپ اپنی طاقت اور قوت نافذہ سے اس پر عمل کروادیں۔ ابھی عسکری خان باہر ہی نکلا تھا کہ عدالت خان، انصاف، انسانی حقوق اور آئین کے نعرے لگاتے ہوئے میکاولی کے پاس جا پہنچا اور بتایاکہ وہ کھلاڑی خان کا حامی نہیں وہ صرف اسے انصاف دے رہا ہے مگر عسکری خان یہ ماننے کو تیار نہیں، آپ کوئی حل بتائیں کہ اس مخمصے سے کیسے نکلیں۔ میکاولی نے کچھ دیر سوچا اور کہا آپ نے ہیرو کا راستہ اختیار کیا ہے اور ہیرو کو رکاوٹیں پیش آتی ہیں، ہیرو ناکام ہو تو تاریخ میں اس کا ذکر سنہرے الفاظ میں آتا ہے، کامیابی کا چانس تو کم ہے مگر کوشش ضرور کرنی چاہیے وگرنہ دنیا سے اخلاقیات بالکل ہی ختم ہو جائیں گی۔ عدالت خان نے اثبات میں سر ہلایا اور سرخ پٹی والا کالا گاؤن سنبھالتے ہوئے باہر نکل گیا۔
میکاولی کی تضادستان میں آمد اور تضاد بیانیوں کی خبر صحافی خان کو ہوئی تو وہ بھی آن پہنچا۔ میکاولی پہلے تو پس و پیش کرتا رہا مگر بالآخر صحافی خان سے ملنے کو تیار ہوگیا اسے علم تھا کہ صحافی خان الٹے سیدھے اور مخالفانہ سوال کرے گا۔ صحافی خان نے میکاولی کو ملتے ہی کہا حکیم، تم نے ہمیشہ آمروں اور جرنیلوں کومضبوط کیا ہے، عام عوام اور اخلاقیات کا تم سے دور دور تک واسطہ نہیں ہے، تم ہمیشہ بادشاہوں کے ساتھی رہے ہو۔
میکاولی نے صحافی خان کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا اور کہا میرا صدیوں کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ طاقت بندوق کی نالی سے نکلتی ہے، اخلاقیات، اصول اور آئین بندوق کے مقابل نہیں ٹھہر سکتے۔ صحافی خان نے ترنت جواب دیا اگر اخلاقیات نہ ہوں، آئین نہ ہو، عدالتیں نہ ہوں تو معاشرہ جنگل بن جائے، ہر کوئی تلوار اور بندوق کے زور پر اپنی دھونس جمائے، انسانوں نے صدیاں محنت کرکے معاشرے کو مہذب بنایا ہے، ظالموں کے سدباب کے لئے اخلاقیات اور آئین ترتیب دیئے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کی دنیا میںبھی ظالم کو کوئی روکنے والا نہ ہوتا۔ میکاولی نے صحافی خان کی دلیلیں سنتے ہی مسکرانا شروع کر دیا اور کہا کہ فلسطین میں طاقت جیت رہی ہے یا اخلاقیات؟صحافی خان نے میکاولی کی مسکراہٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تاریخ میں تو اخلاقیات ہی زندہ رہتی ہے۔ ہلاکو خان ہو، چنگیز خان ان کو آج کون اچھے الفاظ میں یاد کرتا ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیا اور جنرل مشرف آج کتنے مقبول ہیں؟ اصل فیصلہ لمحہ موجود میں نہیں تاریخ میں ہوتا ہے۔ میکاولی نے قہقہہ لگایا اور کہا تاریخ میں زندہ رہنا اور بات ہے طاقت سے فتح یاب ہونا اصل حقیقت ہے، اقتدار پر فائز رہنا اہم چیز ہے۔ ظالم اور مظلوم کی کہانی صحافی اور تاریخ نویسوں کی ہے، سیاست میں اقتدار کا حصول ہی مقصد ہے باقی سب فضول ۔ صحافی خان کہاں چپ رہنے والا تھا اس نے کہا کہ میکاولی تم تو انسانوں کےبھی خلاف ہو، انہیں کمینہ صفت قرار دیتے ہو حالانکہ تمہارا فلسفہ عام ہو جائے تو دنیا سے انصاف ہی ختم ہو جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ