یوٹیلیٹی اسٹور زکارپوریشن کا سستا آٹا مارکیٹ میں بلیک میں بیچنے کے معاملہ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے یوٹیلیٹی اسٹور زکارپوریشن کا سستا آٹا مارکیٹ میں بلیک میں بیچنے کے معاملہ پرملازم کے خلاف تین ماہ کے اندر دوبارہ انکوائری کر کے فیصلہ کرنے کاحکم دے دیا ۔عدالت نے قراردیا ہے کہ مدعا علیہ محمد عمیر بلوچ ملازمت پر موجود رہے گا اوراگر انکوائری میں بے گناہ ثابت ہوتا ہے تو پھر اس کو تمام بیک بینفٹس بھی اداکئے جائیں گے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن آف پاکستان پرائیوٹ لمیٹڈ کی جانب سے زونل منیجر ملتان اوردیگر کے توسط سے ممبرنیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن، ملتان بینچ، ملتان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت محمد شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وہ یوٹلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی جانب سے بطور وکیل پیش ہورہے ہیں جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حیرانی کااظہار کیا۔ جبکہ مدعاعلیہ محمدعمیر بلوچ ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ شعیب شاہین کا دلائل میں کہنا تھا کہ مدعا علیہ کویوٹیلیٹی اسٹور کا سبسڈی والا آٹا بلیک مارکیٹ میں بیچنے پر چارج شیٹ دی اور شوکاز نوٹس دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ این آئی آرسی کا سنگل رکنی بینچ کا مدعا علیہ کو بحال رکھنے کا حکم لاہور ہائی کورٹ نے برقراررکھا۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ مدعا علیہ نے انکوائری میں جواب دیا کہ میں نے بلیک مارکیٹنگ نہیں کی اوران کے خلاف انکوائری پراپر نہیں کی گئی اوررپورٹ عدالت میںجمع نہیں کروائی گئی۔

شعیب شاہین نے بتایا کہ مدعا علیہ کے خلاف کی گئی انکوائری رپورٹ رپورٹ ریکارڈ پر نہیں۔ چیف جسٹس نے مدعا علیہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آٹا خردبرد کیا، بلیک مارکیٹ کیا اور بازار میں بیچا، آپ پرانہوںنے یہ الزام لگایا ہے، آپ نے لکھ کرکوئی جواب دیا کہ نہیں۔ اس پر مدعا علیہ کا کہنا تھا کہ میں نے کچھ نہیں کیا، میں غریب آدمی ہوں اور میرے چھوٹے ، چھوٹے بچے ہیں۔ چیف جسٹس مدعا علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہ وکیل کرنا ہے نہیں، ساری داستان نہ سنائیں۔ مدعا علیہ کا کہنا تھا کہ انکوائری رپورٹ ہائی کورٹ میں پیش نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم دوبارہ انکوائری کا حکم دے دیتے ہیں۔ محمد شعیب شاہین نے بتایا کہ عدالتی حکم پر مدعا علیہ کو بحال کردیا گیا ہے۔ اس پر مدعا علیہ محمد عمیر بلوچ کا کہنا تھا کہ مجھے 2011والی 27ہزارروپے تنخواہ دے رہے ہیں اور بقایاجات بھی نہیںدیئے۔

چیف جسٹس کا مدعا علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم دوبارہ انکوائری کا حکم دے دیتے ہیں اوراس دوران آپ کو بحال ہی رکھیں گے اور ہم آپ کے خلاف نہیں لکھیں گے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ مدعا علیہ پر سبسڈی والا آٹا مارکیٹ میں فروخت کرنے کا الزام ہے۔درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ ہم نے مدعا علیہ کو بحال کردیا ہے تاہم دوبارہ انکوائری کی اجازرت دی جائے۔ مدعا علیہ نمبر تین خود پیش ہوااورہم نے پوچھا کہ اسے نئے سرے سے انکوائری اعتراض تونہیں۔ اس پر مدعا علیہ نے جواب دیا کہ جلد انکوائری مکمل کی جائے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پرانے الزامات پر ہی تین ماہ کے اندر انکوائری مکمل کی جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر مدعا علیہ انکوائری میں بے گناہ ثابت ہوتا ہے تواس کو بیک بینفٹس بھی دیئے جائیں گے، پیسے دے دیں گے۔ چیف جسٹس نے مدعا علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کو چھیڑیں گے نہیں آپ اُدھرے ہی رہیں گے۔ عدالت نے اپیل اور لسٹڈ درخواستیں متذکرہ بالا شرائط کے ساتھ نمٹادیں۔