بچوں کا عالمی دن،جنوبی ایشیا میں ساڑھے تین ملین سے زائد بچے صاف پانی سے محروم

جنیوا(صباح نیوز)یونیسیف کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں تقریبا 347 ملین بچے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ صاف پانی سے محروم جنوبی ایشیا کے پچپن فیصد بچے دنیا بھر کے بچوں کی کل آبادی کا ایک چوتھائی بنتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے ایک تجزیے کے مطابق، اس خطے میں مجموعی طور پر 18 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد کا 55 فیصد پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس خطے میں دنیا بھر کے بچوں کی کل آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ آباد ہے۔ یونیسیف کے مطابق دنیا میں پائے جانے والے صاف پانی کا صرف چار فیصد اس خطے میں دستیاب ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں پانی کی کمی سے دوچار اس خطے کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ بچوں کے بہبود کے اس ادارے نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کی کمی  زراعت، صنعت اور اقتصادی ترقی کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں صاف پانی سے محروم افراد میں سب سے ذیادہ تعداد بچوں کی ہے۔

یونیسیف کے جنوبی ایشیا  کے ڈائریکٹر سنجے ویجے سیکرا نے اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا،”صاف پانی ایک بنیادی انسانی حق ہے، پھر بھی جنوب ایشیا جیسے سیلاب سے دوچار خطے میں لاکھوں بچوں کو پینے کا صافپانی  کافی مقدار میں میسر نہیں ہے۔ خشک سالی اور دیگر انتہائی موسمی واقعات، صاف پانی کی قلت کا سبب بن رہی ہیں۔خلیجی ریاست دبئی میں 30 نومبر سے 12 دسمبر تک جاری رہنے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس COP28 کے اختتام سے پہلے اس ماہ، یونیسیف، بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اس سیارے کو آئندہ نسل کے لیے رہنے کے قابل بنانے کے لیے مطلوبہ اقدامات کرے۔اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر 594 ملین بچے اب بھی صاف پانی  سے محروم ہیں۔

انہیں پینے کا پانی اور حفظان صحت کی خدمات کی شدید کمی، خاص طور پر پانی کی قلت اور آب و ہوا سے متعلق شدید نوعیت کے واقعات کے بڑھ جانے کا خطرہ بچوں کے لیے غیر معمولی دبا خطرات کا سبب بن رہا ہے۔پانی  کی کمی بچوں کی بہبود اور نشوونما کو متاثر کرتی ہے، ان میں غذائی قلت اور اسہال جیسی بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ دوسری جانب پانی کی کمی زراعت، صنعت اور اقتصادیات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ  کھیتی باڑی کرنے والے خاندانوں کو اگر زراعت کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہو اور ان کی کیھتی باڑی کی صورتحال متاثر ہو تو بچوں کو ممکنہ طور پر چائلڈ لیبر پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یونیسیف نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ  پانی کی فراہمی کی خدمات تیزی سے پھیل رہی ہیں اور 2030  تک ایسے بچوں کی تعداد نصف رہ جانے کی امید کی جا رہی ہے جنہیں پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے۔۔