اسلام آباد (صباح نیوز) جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے پاکستان میں دہشت گردی اور خود کش حملوں میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کے شواہد سینیٹ ہول کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں پیش کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔ وہ ایوان بالا کو اپنے دورہ مصر ، غزہ کے قریب صحرائے سینا میں امدادی سرگرمیوں کے بار ے میں بھی بریفنگ دیں گے اور چیئرمین سینیٹ نے ان کی درخواست قبول کرلی ۔
سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ غزہ فلسطین کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے دورہ مصر کے بعد سینیٹر مشتاق احمد خان ایوان بالا پہنچ گئے ۔ ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی سرحد کے قریب سے ہو کر آیا ہوں ، ون پوائنٹ ایجنڈے کے تحت اس دورے کے بارے میں ایوان بالا کو بریفنگ دینا چاہتا ہوں ۔ چیئرمین سینٹ نے ان کی درخواست قبول کر لی اور اس مقصد کے لیے جلد وقت کا تعین کیا جائے گا ۔مشتاق احمد خان نے کہا کہ افغان باشندوں کے معاملے پر ایوان میں تحریک پر بحث ہو رہی ہے حکومتی فیصلے کے خلاف میں نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پانچ نکات اٹھائے جائیں گے کہ افغانوں کے حوالے سے سہہ فریقی معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔
دوم یہ کہ نگران حکومت کی پالیسی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے اسی طرح یہ 7 فروری 2007 ء کو اور 20 جون 2023 ء کے وفاقی کابینہ کے فیصلوں سے بھی انحراف ہے ۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ اپیکس کمیٹی نے افغانوں سے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے اس کمیٹی کی کیا قانونی حیثیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ غیر منتخب حکومت کو اس قسم کے فیصلوں کا اختیار نہیں ہے ۔ ہمیں ہمیشہ افغانستان سے تعاون ملا ہے ۔ وزیر داخلہ کے مطابق پاکستان میں سترہ لاکھ غیر قانونی افغان باشندے ہیں رواں برس چوبیس خود کش حملوں میں 14 واقعات میں افغانوں کے ملوث ہونے کا کہا گیا ہے ۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس معاملے پر سینیٹ ہول کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے اور نگران وزیر داخلہ وہاں شواہد و ثبوت پیش کریں ۔اس قسم کے معاملات سفارتی ذرائع سے حل کئے جاتے ہیں حکومتوں کی جانب سے میڈیا میں اس کی تشہیر سے یہ حل ہونے کی بجائے خراب ہوتے ہیں ۔ 2006 ء تک کسی دستاویزات کی ضرورت نہیں تھی بعد ازاں ان کی شناخت کے لیے رجسٹریشن کا فیصلہ کیا گیا اور کارڈز جاری کئے گئے ۔
افغان شہری اور رجسٹریشن سے متعلق دو کارڈز جاری ہوئے ان میں 14 لاکھ ( POR) اور افغان شہریت ( ACC ) کارڈز جاری ہوئے اور اگر ان کی اب تجدید نہیں کی جا رہی تو اس میں افغانوں کا کیا قصور ہے ۔ 2021 ء میں جب طالبان کی حکومت آئی تو 6 لاکھ افغان پاکستان آ گئے 94 فیصد باڑ ہونے کے باوجود یہ افغانی کیسے پاکستان آئے ۔ یہ وہ افغانی ہیں جو اپنے ملک میں ڈالروں میں تنخواہیں لیتے تھے اور جب پاکستان کی سرحد پار کرنے لگے تو ہر افغانی سے ایک لاکھ روپے کی رشوت لی گئی ہمیں بتایا جائے کہ وہاں تعینات لوگ سرحد کا تحفظ کر رہے ہیں یا رشوت لے رہے ہیں ۔ تمام ادارے ملوث ہیں خود اندر آنے کی اجازت دی اور رجسٹریشن نہ کی ۔ سینیٹ ہول کمیٹی کا اجلاس ضرور طلب کیا جائے خارجہ پالیسی دوست بنانے کے لیے ہوتی ہے ناراض کرنے کے لیے نہیں ۔کیا افغانستان نے ہمارا دفاع نہیں کیا اور ہم انہیں سٹریٹجک اثاثے قرار دیتے رہے ۔ کس پلان کے تحت نکال رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں مزید تفصیلات پیش کروں گا ۔