آئین پاکستان کے تحت 5تا16سال کی عمر کے بچوں کے لیے مفت اور معیاری تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری  ہے۔ پروفیسر محمدابراہیم خان


پشاور(صباح نیوز)  نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ڈائریکٹر جنرل نافع پاکستان پروفیسر محمدابراہیم خان نے تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ این جی اوز کے حوالے کرنے کی حکومتی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حقیقت اپنی جگہ  بہت اہمیت کی حامل ہے کہ  مرکزی و صوبائی محکموں کی عدم توجہ اور کمزور گورننس کی وجہ سے ہی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کوفروغ  ملاہے۔معاملہ  یہاں  پر ختم  نہیں ہوا بلکہ حکومت نے اپنی نا اہلی اور ناقص گورننس پر پردہ ڈالنے کے لیے تعلیمی اداروں کو این جی اوز کے تسلط میں دینے کا عمل شروع کیاجوبتدریج جاری ہے۔اس وقت پنجاب،سندھ اور خیبرپختونخوا میں ہزاروں تعلیمی اداریپرائیویٹ این جی اوز کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہارانھوں نے نافع پاکستان کے ذمہ داران اور تعلیمی وفود سے گفتگو میں کیا۔ا نہوں نے کہا کہ ہماری حکومتوں نے ہمیشہ سے تعلیم کو غیر ملکی این جی اوز کے رحم وکرم پر چھوڑا ہے،جس کے نتیجے میں یکساں نظام تعلیم،یکساں نصاب تعلیم،تعلیمی اصلاحات،تربیت اساتذہ کا موثر نظام،تعلیمی اداروں کے لیے سہولیات کی فراہمی اور تعلیم کے جدید معیارات سمیت شرح خواندگی میں سو فی صد اضافے کا خواب آج تک پورا نہیں کر سکی۔ہمارے لیے  لمحہ فکریہ ہے کہ حکومت سرکاری تعلیمی اداروں میں معیارِ تعلیم کی فراہمی،سہولیات کی  دستیابی، اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت،اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے،طلبا کی حاضری کو یقینی بنانے اور امتحانی نظام میں بہتری سمیت تمام قابل عمل پہلوں میں ٹھوس اصلاحات لانے کے بجائے سرکاری سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کر رہی ہے کہ وہ ان سکولوں کا نظام چلائے۔آئین پاکستان  کے آرٹیکل25-Aکے تحت5تا16سال  کی عمر کے بچوں کے لیے مفت اور معیاری تعلیم دینا ریاست  کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے اورحکومت  تعلیمی اداروں کو این جی اوز کے حوالے کر کے اس ذمہ داری سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ تعلیم کے شعبے میں حکومت کی عدم توجہ اقتصادی سروے رپورٹ2022-23ئکا جائزہ لینے سے بخوبی ہوتا ہے کہ شرحِ خواندگی 63فی صد کے ساتھ پاکستان دنیا کے 180ویں نمبر پر ہے۔2کروڑ 30لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں،جن میں بلوچستان میں 47فی صد،سندھ میں 44فی صد،خیبر پختونخوا میں 32فی صد اور پنجاب میں 24فی صد ہے،اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں 2لاکھ 16ہزار اور گلگت بلتستان میں 48 ہزار بچے سکول سے باہر ہیں۔ 2010 کی تعلیمی پالیسی  میں 100فی صد شرح خواندگی کا ہدف مقرر کیاتھا،لیکن تا حال وہ ہدف حاصل نہیں ہو سکے۔گزشتہ سال تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.7فی صد خرچ کیا گیا۔بحیثیت قوم ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کا نام دنیا کے  ان بارہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے،جہاں جی ڈی پی کا 2فی صد سے کم تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔76سالہ ملکی تاریخ کے نظامِ تعلیم کا ایک مختصرجائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ تعلیم کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے،پالیسیاں بنتی رہیں،مگروہ کاغذ ہی پر رہیں۔

انھوں نے کہا کہ نئی نسل قوم کا اثاثہ ہے،اس لیے ان کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔کسی بھی قوم کے لیے بہترین سرمایہ کاری شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری ہے،جب حکومت مالی بوجھ سمجھ کر یہ کام غیروں کے حوالے کرتی ہے تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔اس وقت بھی سرکار ی  تعلیمی اداروں کی عمارتیں اور کھیل کے میدان  بہت معیاری ہیں،لیکن صرف  حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کھنڈر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔اس کا حل یہ نہیں ہے کہ اسے نجی این جی اوز کے حوالے کر دیں،بلکہ بہترین تعلیمی اصلاحات کے ساتھ اِن اداروں  کی اپ گریڈیشن ضروری ہے۔ ناگزیر ہے کہ نظریہ اسلام اور پاکستان کی روشنی میں ایسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے جو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کوجڑ سے اکھاڑ پھینکے اور ایک آزاد نظامِ تعلیم  نافذ کرے، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یکساں نصاب  تشکیل دے اور طبقاتی نظام تعلیم کا مکمل خاتمہ کرے۔