غزہ(صباح نیوز) فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پانچ نومبر تک غزہ کی پٹی کے 35 میں سے 18 ہسپتال اور 76 میں سے 51 طبی مراکز اسرائیلی حملوں یا ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند ہیں۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق تقریبا 50 ایمبولینسز کو اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچا، ان میں سے 31 خراب ہیں اور کم از کم 175 ہیلتھ ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں۔بین الاقوامی قانون کے تحت امدادی کارکنوں اور صحت کے عملے اور ان کی سہولیات کا تحفظ ضروری ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے لیے کام کرنے والے عملے کے کم از کم 88 ارکان اور سول ڈیفنس کے 18 امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے تو اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق ان میں سے 46 صحافی بھی پانچ نومبر تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنیوا کنونشن 1949 کے تحت ان کی حفاظت اور کام کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق حالیہ اسرائیل غزہ جنگ گذشتہ تین دہائیوں کے تنازعات کے مقابلے میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک رہی ہے۔گزشتہ تین دنوں میں اسرائیلی فورسز کی طرف سے آٹھ ہسپتالوں پر بمباری کی گئی۔الجزیرہ کے مطابق غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے بتایا کہ 7 اکتوبر سے 18 ہسپتال بند ہیں۔فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی نے اعلان کیا ہے کہ غزہ شہر کے القدس ہسپتال میں جنریٹرز کے لیے ایندھن کی شدید قلت کے سبب سروسز محدود کر دی گئی ہیں۔
انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد ایندھن کی کھپت کو بچانا ہے جو آج ممکنہ طور پر ختم ہوجائے گا۔بیان میں کہا گیا کہ اس طریقہ کار کے تحت سرجری یونٹ، آکسیجن پیدا کرنے والا یونٹ اور ریڈیولاجی یونٹ بند کر دیا جائے گا کیونکہ ہسپتال کو چھوٹے جنریٹر کے ذریعے بجلی مل رہی ہے۔ہسپتال انتظامیہ نے ہر عمارت میں روزانہ اوسطا 2 گھنٹے بجلی استعمال کرنے کا شیڈول ترتیب دیا ہے تاکہ بیگھر افراد کھانا پکا سکیں اور اپنے موبائل فون چارج کر سکیں۔دوسری جانب
غزہ کی لڑائی میں زندہ بچنے میں کامیاب لوگوں کی زندگی انتہائی مشکل ہوگئی
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق غزہ کی لڑائی میںوہ لوگ، جو اب تک زندہ بچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، ان کے لیے غزہ میں زندگی انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہاں خوراک کی کمی، پانی کی شدید قلت اور صحت کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت نے اکتوبر کے وسط میں کہا تھا کہ غزہ میں خاندان اور بچے کھانا پکانے، پینے اور حفظان صحت کے لیے فی شخص صرف تین لیٹر پانی پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ کسی بھی شخص کے لیے یومیہ کم از کم 15 لیٹر فی شخص ہے۔حال ہی میں رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں بہت کم پانی کی سپلائی مہیا کی گئی اور اس کے بعد سے پانی کی فراہمی کے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔
پانچ نومبر کو اقوام متحدہ کے ادارے او سی ایچ اے نے رپورٹ کیا کہ غزہ میں پانی کی کھپت میں جنگ سے پہلے کی سطح کے مقابلے اوسطا 92 فیصد کمی آئی اور 65 سیوریج پمپنگ سٹیشنوں میں سے زیادہ تر کام نہیں کر رہے۔31 اکتوبر کو ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی، زیادہ بھیڑ اور پانی اور صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان سے غزہ میں صحت عامہ کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔UNOCHA کا کہنا ہے کہ اس نے فلسطینی اور اسرائیلی حکام کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی۔