علامہ اقبال کی شاعری اور سوچ میں نوجوانوں کو خودی کے فلسفے کے تحت خصوصی اہمیت دی گئی ،وہ نوجوانوں کو گیم چینجر سمجھتے تھے،سید جمال شاہ

لاہور(صباح نیوز)نگران وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت سید جمال شاہ نے کہا ہے کہ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کی شاعری اور سوچ میں نوجوانوں کو خودی کے فلسفے کے تحت خصوصی اہمیت دی گئی ہے،علامہ اقبال نوجوانوں کو گیم چینجر سمجھتے تھے،حکومتوں کو بھی چاہیے کہ نوجوانوں کیلئے بہتر مواقع پیدا کریں، سسٹم ایسا ہو کہ کم آمدنی والے لوگ بھی انتخاب لڑ سکیں،اسمبلیوں میں جب مخصوص کلاس پہنچتی ہے تو پھر عوام کی بات نہیں ہوتی،علامہ اقبال کی اہمیت اور ضرورت آج سب سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے،میں اقبال کا مداح ہوں لیکن اقبال شناس ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا،اقبال کی آفاقی فکر ہے،اقبال کی شاعری میں جو گہرائی ،خوبصورتی اور روانی ہے وہ بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے،اقبال روایتی ہونے کے ساتھ ساتھ ماڈرن انسان بھی تھے،علامہ اقبال مستقبل میں دیکھ سکتے تھے ،وہ بڑے سیاستدان تھے،علامہ اقبال کو دین کی بہت سمجھ تھی اور میں انہیں بڑا دینی و مذہبی سکالر سمجھتا ہوں.

یوم اقبال کی مناسبت سے ایوان اقبال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔سینیٹر ولید اقبال،ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی عبدالرف رفیقی،ڈاکٹر سلیم را،محمد نعمان چشتی اور طلبہ او راساتذہ کرام کی کثیر تعداد اس موقع پر موجود تھی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک کے کلچر اور ہیریٹیج کو اہمیت دے رہی ہے جسے 75 سالہ تاریخ میں کسی حکومت نے اہمیت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ اقبال شناس ہونا بہت مشکل اور ناممکن بات ہے ،میں علامہ اقبال کا مداح ہوں اور اس وقت میں نے حاضرین کے جو مقالے سنے ہیں ان میں انہوں نے علامہ اقبال کی شخصیت کے ہر پہلو پر احاطہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو علامہ اقبال کی شاعری میں گہرائی اور وسعت دیکھی وہ بہت کم شعرا میں ملتی ہے ، علامہ اقبال کی لکھی ہوئی غزلوں میں کئی دھنیں بنی ہوئی ہیں اسی لئے کمپوزروں کو اقبال کے کلام کی دھن بنانے میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال ایسے درویش تھے جو دنیا کی حقیقت سے آشنا تھے ، وہ ایسے دانا تھے جو ہر طرح کے ماحول کو سمجھتے تھے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال فلسفی اور مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاست دان بھی تھے جسے بہت کم دنیا جانتی ہے کیونکہ ان کی نظرآنے والے وقت پر ہوتی تھی اور وہ مستقبل کی چیزوں کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی فکر میں کشادگی تھی اور وہ ایک مذہبی و دینی سکالر بھی تھے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ علامہ اقبال نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبہ سے بہت کچھ سیکھا تھا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ایک ایسا زرخیز ملک ہے جہاں سب کچھ موجود ہے جبکہ ان کا اپنا بیانیہ اور موجودہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے اور اگر تمام حکومتیں اس پر عمل پیرا رہیں تو انشااللہ بہت جلد ملک میں انقلاب آ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی وزیر ثقافت آئندہ چند روز میں ایک وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کرنے آ رہے ہیں ،یہ وفد علامہ اقبال کی زندگی پر ایک فلم بنانے جا رہے ہیں ‘دراصل 2007سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا جو اب عملی طور پر پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے اور ہم پاکستان کی حکومت اور وزارت ثقافت ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کریں گے تاکہ ان کا یہ پراجیکٹ مکمل ہو سکے۔ انہوں نے تقریب میں موجود بیرون ملک تعلیم سے حاصل کر کے پاکستا ن آنے والی گلوکارہ سارا پیٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ علامہ اقبال کی نظم شکوہ جواب شکوہ کو کمپوز کریں تاکہ باہر کی دنیا بھی اس کو ایک نئے انداز میں سن سکے۔آخر میں مہمانوں کو شیلڈز بھی دی گئیں۔۔