اسلام آباد (صباح نیوز) قائمہ کمیٹی سیفران کا محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے لیویزکو پولیس ملازم سمجھنے کے اپنے ہی پالیسی بیان اور وعدے سے پیچھے ہٹنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسا کرکے انہوں نے ایوان بالا کے تقدس کی توہین کی ہے ۔صوبائی محکمہ کو سی پی او کے اس بیان سے پیچھے ہٹنے کی تحقیقات کی ہدایت کردی گئی ۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستوں اور سرحدی علاقوں کا اجلاس یہاں پارلیمنٹ لاجز میں سینیٹر ہدایت اللہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔23 لیویز اور خاصہ داروں کاخیبرپختونخوا پولیس میں انضمام نہ ہونے سے متعلق معاملہ کا جائزہ لیا گیا ۔ اہلکاروں نے کمیٹی سے رابطہ کیا تھا کہ ہمارا پولیس میں ضم ہونا تھا لیکن ہمیں پولیس تصور نہیں کیا جارہا،ارکان نے اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس کیوں لیٹ ہو رہا ہے،سینیٹر بہرا مند تنگی نے کہا کے پی کے حکومے نے کمٹمنٹ کو آنر نہیں کیا اسی لئے وہ کورٹ چلے گئے،
خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق فاٹا انضمام کے بعد 25 ہزار 981 لیویز اورخاصہ دار اہلکار پولیس کا حصہ بنے، صرف 382 وہ لوگ ہیں جن کے کیسز زیرالتواء ہیں ہیں،ابھی ہم نے1600 آسامیوں پر بھرتیاں کرنی ہیں،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ کے اعلی افسر نے کمیٹی میں جو بیان دیا تھا وہ کسی رول کے تحت دیا ہوگا،اس افسر نے بیان دیا تھا کہ ہم ان اہلکاروں کو پولیس افسران تصور کرتے ہیں،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فاٹا کے انضمام سے پہلے ان اہلکاروں کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوئی تھی، کیا اس کو اس وقت پتہ نہیں تھا کہ یہ ریٹائرڈ ہیں؟اس معاملے پر آئندہ اجلاس میں جواب دیں پھر ہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ان کے خلاف ایکشن کا کہیں گے، ہمیں بھی مس گائیڈ کیا گیا، کچھ تو ہوگا جو اس نے یہ بیان دیاتھا، چیئرمین کمیٹی ۔مارچ 2022 میںبھی اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا اور متعلقہ سی پی او کی طرف سے لیویز اور خاصہ دار اہلکاروں کو جذب کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ محکمہ داخلہ کے پی کے کے حکام نے بتایا کہ لیویز اور خاصہ داروں کا کیس خیبر پختونخوا سروس ٹربیونل کے سامنے زیر التوا ہے اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔کمیٹی کے سربراہ نے واضح کیا کہ متاثرہ ملازمین کیس کو سروس ٹربیونل میں لے گئے کیونکہ اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہیں ہوا ۔اور اب محکمہ داخلہ کا کہ رہا ہے کہ اس سے قانونی مضمرات پیدا ہوں گے۔
چیئرمین نے یاد دلایا کہ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ کے پی کے اکبر علی بھی اجلاس میں موجود تھے اور سی پی او کے پی کے نے تحریری اور زبانی بیان دیا کہ محکمہ ان 23 اہلکاروں کو پولیس کا حصہ سمجھے گا اور وہ بطور پولیس افسر ریٹائر ہوں گے۔سپیشل سیکرٹری داخلہ نے اس وقت سی پی او کے پی کے کے اس بیان کی مخالفت نہیں کی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ سب متفق تھے اور اسی لیے کمیٹی نے سفارشات دیں۔ کمیٹی نے متاثرہ ملازمین کے ساتھ اس غیر پیشہ ورانہ اور غیر منصفانہ رویے پر برہمی کا اظہار کیا۔ حکام نے کچھ قانونی رکاوٹوں کی آگاہی دی ۔ خاصہ داروں اور لیویز میں غلط درجہ بندی کے مسائل ہیں۔فیصلہ زیر التوا ہے۔ کمیٹی نے محکمہ داخلہ کی وضاحت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی آئی جی محکمہ پولیس میں ذمہ دار اور اعلی عہدے پر فائز ہیں اور انہوں نے قواعد کے تحت بیان دیا ہوگا۔ چیئرمین سینیٹر ہدایت اللہ نے ہدایت کی کہ اسٹیبلشمنٹ کو فون کرکے پوچھ گچھ کی جائے جس نے دوہرے بیانات دیے ہیں، کس اہلیت کی بنیاد پر اس نے یہ وعدہ کیا تھا۔ کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ کل 25977 لیویز اور خاصہ دار فورس میں سے 3854 ضم ہونا باقی ہیں۔سینیٹردوست محمد خان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے معاملے میں تاخیر پر سوال اٹھایا اور ٹائم لائن دینے کا مطالبہ کیا۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کارروائی مکمل کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دے دیا