قبائلی اضلاع کو انضمام کے بعدتین فیصد این ایف سی سمیت دیگر حقوق نہیں دیے گئے. پروفیسر محمد ابراہیم خان

باجوڑ (صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان  نے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع کو انضمام کے بعد وعدوں کے باوجود کچھ نہیں دیا گیا۔ تین فیصد این ایف سی سمیت دیگر حقوق نہیں دیے گئے۔ محرومیوں کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ حکومت قبائلی اضلاع کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرے۔ قبائلی علاقوں کے وسائل میں ان کو پورا حق دیا جائے۔ حکومت نے بجلی کے بلوں اور مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ کیا۔ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ حکمران وہ پالیسیاں نہ دہرائیں جس سے امن و امان غارت ہو۔ نگران حکومت مہنگائی میں مزید اضافے کی خواہشمند ہے۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر عوام پر مہنگائی مسلط کرنا شرمناک اور افسوسناک ہے۔ جماعت اسلامی نے بجلی بلوں اور مہنگائی میں اضافے کے خلاف پشاور میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی قیادت میں 18 ستمبر کو گورنر ہاس کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماضی قریب کی حکومتوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر مہنگائی کی۔ آئے روز مہنگائی کے ہاتھوں پاکستان کے عوام کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔جماعت اسلامی ملک و قوم کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے  باجوڑ میں مولانا وحید گل کی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ضلع باجوڑ کے امیر صاحبزادہ ہارون الرشید، سیکرٹری جنرل محمد حمید صوفی، حاجی سردار خان، مولانا عبدالمجید اور دیگر رہنما شریک تھے۔  پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ قبائلی عوام انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو پینے کا صاف پانی، صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولیات میسر نہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ قبائلی اضلاع کو دس سالوں کے دوران ایک ہزار ارب روپے کا پیکج دیا جائے گا لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود بھی انھیں کچھ نہیں دیا گیا نا ہی یہاں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کیا گیا۔ حکومت نے قبائلی عوام کو دھوکا دیا ہے۔

انھوں نے نگران حکومت کو مشورہ دیا کہ آئی ایم ایف کو دو ٹوک الفاظ میں بتانے کی ضرورت ہے کہ عوام ٹیکسوں کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے پیسوں کا ریلیف عوام کو ملنا چاہیے تھا لیکن وہ حکمرانوں کے عیش و عشرت پر خرچ ہوگئے۔انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے انتخابات تاخیر کا شکار ہوں۔ انتخابات کے التوی کے لیے ہر قسم کے تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ مردم شماری کی منظوری کو ملتوی رکھا گیا اور پھر حکومت نے جانے سے چند دن پہلے اس کی منظوری دی، حالانکہ دو صوبوں میں نگران وزرا اعلی تھے۔ حلقہ بندیوں کی صورت میں الیکشن کمیشن کو بھی تاخیر کا بہانہ مل گیا۔ حکومت نوے کے روز کے اندر انتخابات منعقد کرے۔شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی خیبر پختونخوا