اسلام آباد(صباح نیوز)نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ڈائریکٹرجنرل نافع پاکستان پروفیسرمحمدابراہیم خان نے کہا ہے کہ کسی بھی قوم نے اپنی زبان کو چھوڑکر مستعارزبان میں ترقی نہیں کی ہے،تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اُنھوں نے اپنی ہی زبان میں ترقی کی ہے۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا معاملہ اُلٹ ہے۔قیام پاکستان کے بعد ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک عزیز میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں انگریزی کو ہمارے سروں پر زبردستی مسلط کیاگیا اور ایک غیر ملکی زبان کو اتنی اہمیت دی گئی کہ اُردو کو اس کے جائز حق سے محروم کردیاگیاہے۔وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 76 سال کاعرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم انگریزی زبان کے جال سے باہر نہیں نکل سکے۔
ان خیالات کا اظہاراُنھوں نے نافع اسلام آباد کے زیراہتمام”اُردو کی ترویج میں معلم کا کردار”کے موضوع پر منعقدہ تعلیمی سیمینارکے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ڈاکٹر سیدہ ضیاء بتول(چییرپرسن فار پراییویٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ ریگولیٹری اتھارٹی اسلام آباد)،افتخار علی حیدر(ریجنل ڈائریکٹرنافع شمالی پنجاب)،سعید الرشیدعباسی(ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر نافع اسلام آباد)،عبدالوحید(سینئرڈپٹی ڈائریکٹر نافع اسلام آباد)،عامر نوید(سینئرڈپٹی ڈائریکٹر نافع اسلام آباد)،احمد وقاص (جنرل سیکرٹری نافع اسلام آباد)،مجاہد حسین کوآرڈی نیٹر جنرل سیکرٹری نافع اسلام آباد)،زبیر کیانی(ڈپٹی ڈائریکٹر نافع اسلام آباد)، عامر ریاض(ڈپٹی ڈائریکٹر نافع اسلام آباد)، احمد نواز عباسی(ڈپٹی ڈائریکٹر نافع اسلام آباد) اورچوہدری توقیر فنانس(سیکرٹری نافع ضلع اسلام آباد) نے خطاب کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اُردو کو پاکستان کی قومی زبان قراد دینے کا فیصلہ 25 فروری 1948ئکو مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس میں کیا گیا تھا۔ 1956ئاور 1962ئکے دساتیر میں بھی اُردو کو قومی زبان کے طور پر برقرار رکھا گیا اور1973ئکے دستور میں اُردو کو قومی اور دفتری زبان قرار دیتے ہوئے پندرہ سال کی مہلت دی گئی کہ تمام دفتری اور تدریسی موادکو قومی زبان میں منتقل کیا جائے،
لیکن بدقسمتی سے اُردو کو اصل مقام دینے میں ہماری حکومتیں ناکام رہںا۔ 2015ئمیں اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے 8 ستمبرکونفاذ اُردو کا تاریخ ساز فیصلہ سنایا۔ حکومت نے فیصلے پر عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کروائی، لیکن جسٹس جواد ایس خواجہ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی سپریم کورٹ سمیت تمام سرکاری اداروں نے قومی زبان کو پھر سے سرد خانے کی نذر کردیا۔13 فروری 2023ئکو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد رضا قرییا نے حکومت پنجاب کو تسک دن کے اندر نفاذِ اردو کے اقدامات کرنے اور عدالت عالہٹ مںک رپورٹ پشر کرنے کا حکم دیا ہے، لکنح عمل درآمدنہ ہوسکا۔
اُنھوں نے کہا کہ عالمی لسانی سروے کے مطابق اُردو دنیا کی تیسری بڑی اور سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔ اُردو زبان ہمارے دینی اقدار، ثقافت اورتہذیب کی امین ہے،لٹریچر کا بہت بڑا زخیرہ اُردو زبان میں موجود ہے،جسے نئی نسل تک پہنچانا ہماری اوّلین ذمہ داری ہے۔ہمارے حکمران،بیوروکریٹس،عدلیہ کے ججز،فوجی افسران انگریزی زبان کی اندھا دھند ترویج میں مصروف ہیں،جس کی وجہ سے مغربی ثقافتی یلغار نے بڑے پیمانے پر ہماری ثقافت،معاشرتی اقدار،تمدن اور نظریے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہمارے نظریات کا تحفظ، دین کا استحکام اور وطن کی بقا تو اُردو زبان کی ترویج اور اس کی بقا ہی سے وابستہ ہے۔اگر ملک عزیز میں انگریزی لازمی کی پابندی ختم کردی جائیتو شرح خواندگی کا تناسب بڑھ جائے گا اور قوم کی صلاحیتیں تیزی سے نشوونما پانے لگیں گی۔اُنھوں نے مزید کہا کہ زندہ قومیں اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں اور اپنی تعلیمی روایات کواپنی زبان میں اپنی اگلی نسل تک منتقل کرتی ہیں۔
وہ اپنے تدریسی عمل کو اپنے نظریے، عقیدے، وژن اور ضرورت کے مطابق ڈھالتی ہیں۔ غیر ملکی زبان میں نسل نو اپنے اُستاد کی بات کو کیسے سمجھے گی اور غیر ملکی زبان میں رٹا لگانے سے بچوں کی تخلیقی وتحقیقی فکرکیسے پروان چڑھے گی؟ اُستاد اپنی بات اپنے شاگردوں تک اسی زبان میں پہنچاتا ہے جس کو وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے اور شاگرد بھی اپنی ہی زبان میں اپنا مدعا بہترانداز میں بیان کر سکتا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ اس سال کراچی مںع ایک نجی اسکول مںا ایک طالب علم کو اُردو بولنے پر سزا دی گئی۔بچے کے والد نے بتایا:” اسکول مںت اُردو مںل بات کرنے پر اس کے بٹیس کا مذاق اڑایا گاا اور سزا کے طور پر بٹےُ کے چہرے پر کالی سابہی مَل دی گئی”۔شرم کا مقام ہے کہ بچے کو اُردو بولنے پر سزادی جا رہی ہے۔تعلیسی اداروں سے اس قسم کی ذہنت کا خاتمہ کات جائے۔ضرورت ہے کہ تعلیمی ادارے اوراساتذہ نفاذ اُردو کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار اداکریں۔ ہمارا علمی ورثہ اس وقت اُردو مںی ہے،اس ورثے کو نئی نسل تک منتقل کرنے کے لیہ اُردو زبان کا نفاذ ناگزیر ہے۔اگرہم اُردو کو محفوظ نہ رکھ سکے توخدانخواستہ کہیں ہم اپنے علمی ذخر ے سے محروم نہ ہو جائںن۔
اُنھوں نے حکومت،عدلیہ،بیروکریٹس اور افواج پاکستان سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اُردو کو دفتری، تعلیمی، امتحانی اور عدالتی زبان قرار دینے کے لیے کئی قراردادیں ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں سے منظور ہوئیں لیکن مقتدر قوتیں اُردو زبان کو چھوڑ کر آج بھی انگریزی زبان میں خط و کتابت اور دفتری امور جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عدلیہ کے سارے فیصلے بھی اردو کی بجائے انگریزی میں تحریر ہوتے ہیں۔ عدلیہ آئین پاکستان کی محافظ ہے لیکن وہ خود اس کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے، عدلہا فوری طور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی ساری کارروائی اور فصلے اُردو مںا منتقل کرنے کاحکم صادر کرے اوردستور کی خلاف ورزی کو روکا جائے۔اُردو زبان کو بطور قومی زبان قبول کیا جائے اور دستور نے جو تقاضے مقرر کیے ہیں،وہ پورے کیے جائیں۔پاکستان کے تمام وفاقی، صوبائی، سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں اور افواج پاکستان میں دفتری کاروائی سوفی صد قومی زبان اُردو میں کی جائے۔پہلی جماعت سے اعلیٰ ترین سطح تک تعلیم بشمول طب (میڈیکل)، انجینئرنگ، دیگر سائنسی، انتظامی اور سماجی علوم کی تعلیم اُردو میں دی جائے۔نیزمقابلے کے تمام امتحانات اُردو میں لیے جائیں۔