جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام قبائلی اضلاع میں امن و امان اور درپیش دیگر مسائل کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد

پشاور(صباح نیوز)جماعت اسلامی خیبرپختونخوا  کے زیر اہتمام قبائلی اضلاع میں امن و امان اور درپیش دیگر مسائل کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے صوبائی قائدین، قبائلی عمائدین ، دانشور، وکلا، میڈیا سے وابستہ افراد اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معززین نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کی۔

اے پی سی سے صوبائی سیکرٹری جنرل عبد الواسع، نائب امیر عنایت اللہ خان، تحریک حقوق قبائل کے سربراہ شاہ فیصل آفریدی، سابق گورنر انجینئر شوکت علی، جے یو آئی ف کے صوبائی امیر مولانا عطا الرحمن، شاہ جی گل افریدی، جے یو آئی س کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی، پیپلز پارٹی کے ساجد حسین طوری، صحافیوں عقیل یوسفزئی، محمود جان بابر، ناصر حسین اور شمس مہمند اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

صوبائی امیر پروفیسر محمد ابرہیم خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک کے اندر امن اداروں کی کھینچا تانی سے نہیں بلکہ یکجہتی سے آئے گا۔ قبائلی اضلاع میں بدترین بدامنی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، بم دھماکوں میں لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے، ریاست امن قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ انھوں نے کہا کہ قبائل کو اپنے حقوق نہیں دیے جا رہے، ان سے بے شمار وعدے کیے گئے لیکن آج تک ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئی۔

انھوں نے کہا کہ قابلِ تقسیم وفاقی محاصل میں 3 فیصد حق فاٹا کا تھا، تمام تر اتفاق رائے کے باوجود ضم اضلاع کو یہ حق نہیں دیا جا رہا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت حالات بہت مخدوش ہیں، لیکن جس طرح ہر چیز کا کلائمکس ہوتا ہے اور پھر اینٹی کلائمکس شروع ہوجاتا ہے۔ ان شااللہ بدامنی کا کلائمکس بھی پہنچنے والا ہے اور پھر امن کی صورت میں اینٹی کلائمکس رونما ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ قبائل کے حقوق کی یہ تحریک جاری رہے گی اور اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں تمام شرکا نے اپنا نقط نظر پیش کیا اور قبائلی اضلاع میں جاری بدامنی اور دیگر مسائل کے حل حوالے سے تجاویز پیش کیں، مجلس کا درج ذیل نکات پر مکمل اتفاق رائے پایا گیا۔گذشتہ 20 سالوں میں قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی عوام نے لازوال قربانیاں پیش کیں، اپنے گھر بار ، کاروبار اور علاقے چھوڑ کر سالوں تک IDPs رہیں۔ فوجی آپریشن کے بعد اس بات کی توقع کی جارہی تھی  کہ اب اِن علاقوں میں امن وامان قائم ہو گا، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ایک عرصے سے دوبارہ اِن علاقوں میں حالات خراب ہو رہے ہیں۔

مسلح تنظیموں نے دوبارہ اِن علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کر لیا ہے۔ وزیرستان ، باڑہ ، خیبر، باجوڑ سمیت بنوں ، لکی مروت ، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے گردونواح میں مسلح تنظیموں کے باقاعدہ کیمپس قائم ہیں جس سے عوام میں شدید عدم  تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے اور جس سے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہا ہے، عوام ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔شدت پسند مسلح تنظیموں کی دوبارہ آبادکاری سے تمام علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا ہے جس میں بے گناہ لوگ نشانہ بن رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پولیس چیک پوسٹوں پر حملے معمول بن گئے ہیں ۔

گذشتہ چند ماہ  میں قبائلی اضلاع میں 150 سے زائد حملے پولیس چیک پوسٹس پر کیے گئے ہیں۔تاجروں، کارباری حضرات اور ڈاکٹرز کو بھتے کی کالیں موصول ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں ڈاکٹرز دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو علاج معالجے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ مجلس حکومت ِ وقت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ قبائلی اضلاع کو کسی اور پرائی جنگ کے لیے میدان نہ بنایا جائے۔ امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔

ریاستی ادارے عوام کے ذہنوں میں پائی جانے والی تشویش اور اضطراب  کو دور کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے اور ان کی جان و مال اور کاروبار کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ضم شدہ قبائلی اضلاع میں امن وامان کے قیام کیلئے انٹیلیجنس بنیاد پر  بلا تفریق عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ سویلین کی املاک کو نقصان پہنچانے سے ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور کرکے فوجی آپریشن سے اجتناب کیا جائے۔ قبائلی اضلاع کی پسماندگی کو دور کر کے پاکستان کے دیگر اضلاع کی طرح ترقی دی جائے۔

حکومت فاٹا اصلاحات پر سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات سے مختلف حیلے بہانے بنا کر بھاگ رہی ہے جو کہ قبائلیوں کی حق تلفی ہے حکومت فوری طور پر کمیٹی کی سفارشات پر مِن و عن عمل کرتے ہوئے سالانہ 100 ارب اور 10 سالوں میں 1000 ارب روپے دیکر وعدہ پورا کرے۔ قبائلی اضلاع کا قومی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے صوبوں کا، اس لیے این ایف سی ایوارڈ میں قابل تقسیم محاصل کا 3 فیصد حصہ جلد فراہم کیا جائے۔  قبائلیوں کے حق رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستیں بحال کی جائیں۔ قبائلی اضلاع میں گیس ،تیل اوردیگر معدنیات پر ادارے قبائلیوں کے حق کو تسلیم کریں۔

قبائلی اضلاع کے معاشی استحکام کے لئے ناگزیر ہے کہ “لیز” کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔قبائلی اضلاع کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقعے فراہم کرنے کیلئے بلاسود قرضے دیے جائیں۔  قبائلیوں کی ملک کی خاطر قربانیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ملک کے معزز شہری کا حق دیا جائے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری تصور نہ کیا جائے۔قبائلی اضلاع میں مسمار گھروں کیلئے معاوضے کی فوری ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ قبائلی اضلاع کیلئے  پولیس میں کم از کم 20 ہزار مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے۔ قبائلی اضلاع میں معاشی ترقی کیلئے منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔

قبائلی اضلاع میں تعلیمی انقلاب لا کر غیر مثبت سرگرمیوں کو کچلا جا سکتا ہے، اس لیے ناگزیر ہے کہ تمام اضلاع میں یونیورسٹیاں ، کالجز اور سکولز بنائے جائیں اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو بحال کیا جائے۔  قبائلیوں کا بھی حق ہے کہ دیگر پاکستانیوں کی طرح ان کو بھی صحت کی سہولیات دہلیز پر میسر ہوں لیکن افسوسناک امر ہے کہ 20 ہزار مربع میل کے علاقوں میں کوئی میڈیکل کالج اور بڑا ہسپتال نہیں ،لہذا فوری صحت کی سہولیات دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔قبائلی نوجوانوں کو تعلیم کے حصول میں آسانیاں دی جائیں اور ان کے لیے وظائف کا اجرا کیا جائے۔ کھیلوں کو غیر مثبت سرگرمیوں کے خلاف بہترین ہتھیار قرار دیا جاتا ہے اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کرکٹ سمیت ہر گیم میں قبائلیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے اس لیے ہر تحصیل کی سطح  پرگرانڈ بنائے جائیں۔قبائلی اضلاع میں معطل شدہ خاصہ دار فورس کو بحال کیا جائے، جب تک پولیس فورس مکمل اور بااختیار نہیں ہو جاتی اس وقت تک خاصہ دار فورس کو برقرار رکھا جائے۔

قبائلی اضلاع میں افغانستان کی طرف تمام تجارتی راستے کھول دئیے جائیں۔منشیات، ہیروئن ، آئس کی کھلم کھلا فروخت ہورہی ہیاس کی روک تھام اور خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔لینڈمائنزکی صفائی کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں ۔تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے اور جس بھی لاپتہ فرد پر الزام ہو اس کو عدالت میں پیش کیا جائے۔انضمام کے وقت یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ قبائلی اضلاع میں میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیاں بننے تک ملک کے دیگر پروفیشنل اداروں میں انضمام سے پہلے مقرر تعلیمی تعلیمی کوٹہ دوگنا کیا جائے گاجس پر عمل نہ ہوا۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن قبائلی طلبا کو داخلوں میں بلا وجہ تاخیر کرتا ہے اور طلبا کو ذہنی اذیت دیتا ہے۔ اس کا ازالہ کیا جائے۔ انضمام سے پہلے قبائلی علاقہ جات ملک کی پانچویں اکائی تھے لیکن این ایف سی میں پانچویں یونٹ قبائلی علاقہ جات کو حصہ نہیں دیا گیا جو ریاست کے ذمہ واجب الادا ہے۔