انٹر نیٹ کی بنائی متوازی دنیا : تحریر نصرت جاوید


پیر کی صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین اس وقت تک اٹک جیل میں دوراتیں گزارچکے ہیں۔ ان کے دیرینہ حامیوں کو مگر کامل یقین ہے کہ ہائی کورٹ کھلتے ہی ان کی درخواست ضمانت باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرلی جائے گی۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آج ہی کسی وقت درخواست پر دلائل کا وقت طے کردیا جائے جس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم پیر کی رات بھی جیل میں گزارنے کو مجبور نہ ہوں۔
پرانی وضع کا صحافی ہوتے ہوئے میں عدالتی امور کے بارے میں قیاس آرائی کی جرات سے فطرتا محروم ہوں۔عمر بھر مگر سیاست کی وجہ سے ریاست کی ناراضگی کا باعث ہوئے افراد کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی بھی محسوس کی ہے۔ اسی باعث پرخلوص تمنا ہے کہ خان صاحب کے دیرینہ حامیوں کے خیالات درست ثابت ہوں۔بطور صحافی مگر حالات کا منطقی انداز میں جائزہ لینے کی عادت یہ سوچنے کو اکسا رہی ہے کہ شاید محبان عمران کی خواہشات عملی صورت اختیار نہیں کر پائیں گی۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے Pattern اپنے مخصوص تناظر میں اس کا اردو ترجمہ نمونہ بھی ہوسکتا ہے۔یہ لفظ تاہم فیشن یا تعمیرات کے شعبے تک ہی محدود نہیں رہا۔ سیاست کے حوالے سے مختلف ریاستی ا دارے تواتر سے جو رویہ اپناتے ہیں اس کے بارے میں بھی انگریزی کا لفظ Patternہی استعمال ہوتا ہے۔بہرحال اس لفظ کے درست ترجمے کی تلاش میں وقت ضائع کئے بغیر ہمیں اس حقیقت پر توجہ دینا ہوگی کہ گزشتہ چند ہفتوں سے تحریک انصاف کے چنیدہ رہنماؤں کو تندوتیز عدالتی احکامات کے باوجود رہائی نصیب نہیں ہوپائی ہے۔ اس ضمن میں پنجاب کے سابق وزیر اعلی چودھری پرویز الہی اور رانا ثنااللہ کو جان اللہ کو دینی ہے کی تمہید کے ساتھ منشیات سمیت گرفتار کروانے والے شہریار آفریدی کے ساتھ ہوئے سلوک کا حوالہ دینا کافی ہوگا۔مجھے خدشہ ہے کہ مذکورہ دو افراد کے ساتھ جو بیتی ہے اس نے ریاست کو سکھادیا ہے کہ اس کی گرفت میں آئے تحریک انصاف کے سرکرد ہ رہ نماں کو کونسے حیلوں اور بہانوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دنوں تک پابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے۔تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نما?ں کے ساتھ اختیار کردہ سلوک ایک حوالے سے خان صاحب کے گرد شکنجے کو توانا تر بنانے کی مشق بھی شمار کی جاسکتی ہے۔اس کی بدولت ہفتے کے روز ایک سیشن جج کی جانب سے سنائی سزا کے بعد خان صاحب کی مشکلات میں کمی کے بجائے مجھے اضافہ ہی ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ یہ کہنے کے باوجود رب کریم سے فریاد ہوگی کہ میرے خدشات بالآخر قطعا بے بنیاد ثابت ہوں۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں یہ اصرار کرنے کو بھی مجبور محسوس کرتا ہوں کہ خان صاحب اور ان کے وکلا خود کو درپیش قانونی مسائل کو تحریک انصا ف کے قائد کی مقبولیت کی بنیاد پر سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ سابق وزیر اعظم کے خلاف توشہ خانہ کے حوالے سے جو مقدمہ قائم ہوا اس کا سیشن کورٹ میں موثر دلائل سے دفاع کرنے پر کامل توجہ مبذول نہیں رکھی گئی۔ مسلسل یہ کوشش رہی کہ ہائی کورٹ اور بعدازاں سپریم کورٹ یہ طے کردے کہ مذکورہ عدالت اس مقدمے کی سماعت کی مجاز ہی نہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کم از کم تین بار عمران خان کے وکلا کو واضح طورپر بتایا کہ اس ضمن میں پہلے فیصلے کا حق متعلقہ عدالت ہی کو حاصل ہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے آئے کسی قطعی فیصلے کے بغیر سپریم کورٹ بھی اس ضمن میں مداخلت کو تیار نہ ہوئی۔ اعلی عدالتوں سے ریلیف میسر نہ ہوا تو تحریک نصاف کی سپاہ ٹرول نے اپنی توپوں سے سیشن کورٹ کے جج کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم کا آغاز کردیا۔ان کے فیس بک اکا?نٹ سے کچھ ایسی تصاویر دریافت کرلی گئیں جو انہیں عمران خان کا مبینہ طورپر جنونی مخالف دکھاتی ہیں۔ فیس بک پر مبنی کہانی قابل اعتبار سنائی دینے لگی تو ایف آئی ا ے نے جج صاحب کے خلاف لگائے الزامات کو بے بنیاد ٹھہرادیا۔
مذکورہ جج فیصلہ سنانے کے بعد برطانیہ روانہ ہوگئے۔ شنید ہے کہ وہاں انہوں نے عدالتی امور سے متعلق ایک ہفت روزہ ورکشاپ یا ٹریننگ کورس میں شریک ہونا ہے۔ان کی برطانیہ روانگی کی خبر میڈیا میں آئی تو تحریک انصاف کے لندن میں مقیم ایک جذباتی حامی -شایان-منظر عام پر آگئے۔ کیمرے کے روبرو انہوں نے عہد باندھا کہ وہ خان کے خلاف فیصلہ سنانے والے جج کا برطانیہ میں چین سے رہنا ناممکن بنا دیں گے۔ فرطِ جذبات میں برطانیہ کا شہری ہونے کے باوجود وہ جذباتی نوجوان یہ حقیقت فرا موش کرگئے کہ ان کے ملک میں کسی بھی ملک کے جج کو ایسا پیغام کیمرے کے روبرو دینا سنگین جرم شمار ہوتا ہے۔ اس نوجوان کی دل شکنی کے بجائے عمران خان کے ایک دیرینہ دوست بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آئے اور یہ وہی چیکو صاحب ہیں جو سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد سعودی عرب پہنچ گئے تھے اور ان کے اکسانے پر شاہ زین بگتی اور مریم اورنگزیب کے ساتھ مقدس مقامات پر بدتمیزی کے واقعات سرزد ہوئے تھے۔ان واقعات کے ذمہ داروں کو سعودی حکومت نے عبرت کا نشان بنادیا تھا۔مجھے خدشہ ہے کہ چیکو بھائی کی سرپرستی کی بدولت اب برطانیہ میں مشتعل ہوا شایان بھی قانونی مشکلات میں گھرسکتا ہے۔
بیرون ملک ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی عمران خان کے ثابت قدم وفادار جن مشکل حالات سے گزررہے ہیں ان کا بغور مشاہدہ یہ پیغام دیتا ہے کہ تحریک انصاف کے قائد کو تقریبا دیوتا تصور کرتے ہوئے ان کے چند فدائین ہر مصیبت کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔مشکل کی اس گھڑی میں لیکن وہ تنہا نظر آرہے ہیں۔ان کی حمایت میں تحریک انصاف کے دیگر رہ نما اس قدر مضطرب دکھائی نہیں دے رہے۔اس جماعت کے کئی قدآور رہ نما جن میں حماد اظہر بھی شامل ہیں گزشتہ کئی دنوں سے روپوش ہیں۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے شعلہ بیان خطیب بھی جو ہتھکڑی کو اپنا زیور اور جیل کو سسرال پکارتے رہے ہیں گزشتہ کئی دنوں سے نجانے کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ہر دوسرے تیسرے دن اگرچہ وہ ایک وڈیو بیان جاری کردیتے ہیں جس کا مقصد عوام کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ وہ چٹان کی طرح خان کے ساتھ دوستی نبھانے کے عہد پر اصلی اور نسلی ہوتے ہوئے ڈٹے ہوئے ہیں۔کئی بار اس کالم میں جدید ترین تحقیق کے حوالے سے التجا کرچکا ہوں کہ حقیقی ز ندگی میں عملی سیاست انٹرنیٹ کی بنائی Virtualیا متوازی دنیا کے ٹویٹر یا یوٹیوب کی بدولت دئے پیغامات سے قطعا مختلف ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلایا ہیجان بالآخر واہمہ ہی ثابت ہوتا ہے۔تحریک انصاف یہ حقیقت تسلیم کرنے کو مگرابھی تک آمادہ نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت