جنوبی ایشیاکی خوش حالی کے لئے خطے میں علاقائی تعاون لازم ہے،شاہ محمود قریشی


اسلام آباد(صباح نیوز)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیاکی خوش حالی کے لئے خطے میں علاقائی تعاون لازم ہے، پاکستان اور چین کی سدا بہار سٹرٹیجک کوآپریٹو شراکت داری کا طرہ امتیاز چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)رابطوں کی استواری کا ایک بہترین اور مثالی منصوبہ ہے۔پاکستان کی معاشی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سی پیک خطے کو جوڑنے کیلئے بھی ایک اہم راستہ ہے۔ ۔سارک کو تنگ نظر سیاسی ایجنڈوں سے آزاد کرکے زندہ وفعال کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے پرامن اور خوش حال جنوبی ایشیاء کے عنوان سے اسلام آباد کانکلیو۔2021 سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس مجلس کا اہتمام کیا ہے۔ یہ لائق تحسین اقدام ہے۔انسٹی ٹیوٹ نے وژن 2023 پر عملدرآمد کے ضمن میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ اسلام آباد کانکلیو ان کئی اقدامات میں سے ایک ہے جو انسٹی ٹیوٹ نے تحقیق اور مکالمے کے ذریعے پاکستان کے نکتہ نظر کے فروغ دینے کے لئے اٹھائے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد کانکلیو انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والے پانچ مراکز فضیلت کی پانچ سالہ کاوشوں کا نکتہ عروج ہے۔اس کے ذریعے ممتاز پاکستانی و بین الاقوامی ماہرین کو دو روزہ مکالمے کے لئے جمع کیاگیا جو مختلف نشستوں میں شرکت اور اظہار خیال فرمائیں گے۔ میری کوشش ہوگی کہ عالمی اور علاقائی منظر نامے کے وسیع بیانیہ کو آپ کی خدمت میں عرض کروں اور پھر امن وترقی کے لئے پاکستان کی سوچ اور بصیرت کا خاکہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ہماری دنیا تبدیل ہورہی ہے۔

کثیرالقومیت کے نظریہ کو تنہائی پسندی یا یک طرفہ سوچ کی قوتیں توڑ رہی ہیں۔ممالک قوم پرستانہ ایجنڈوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ طاقت کا اظہار ایک نیا معمول بنتا جارہا ہے۔بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ اور کشمکش بڑھتی جارہی ہے جو تصادم کی طرف کھنچ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں نئی مخالفتیں اور رقابتیں جنم لے سکتی ہیں اور دنیا کو پھر سے دھڑوں کی سیاست کی نذر کررہی ہیں۔ ایک نئی سردجنگ کا ظہور ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ہتھیاروں کے انباروں میں اضافہ اور نئی ابھرتی ہوئی جنگی ٹیکنالوجی سے حربی امور کے بنیادی تقاضے ہی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔جارحانہ جنگی نظاموں کے منظر عام پر آنے، اشتعال انگیز نظریات کی رونمائی اور جارحانہ جنگی قوت کا اظہار، کشیدگیوں کو بڑھانے اور فوجی مہم جوئی جیسے عوامل، پہلے سے سٹرٹیجک عدم استحکام کے شکار ہمارے خطے کے لئے مزید خطرات کا موجب بن رہے ہیں۔جنوبی ایشیامیں سٹرٹیجک استحکام کے لئے جوہری صلاحیتوں سے متعلق متفقہ طور پر طے شدہ پابندیاں اور روایتی افواج ناگزیر ہیں۔

جنوبی ایشیا دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کا مسکن ہے جہاں نیٹ سکیورٹی پروائیڈر جیسے نظریات کا فروغ پانا، خطے کے دیگر ممالک کے جائز سیاسی، معاشی اور سلامتی کے مفادات سے صرف نظر کرنا ہے۔یہاں کے عوام کے درمیان استوار تاریخی، ثقافتی، لسانی، نسلی اور جغرافیائی رابطوں سے قطع نظر، جنوبی ایشیاتنازعات، جنگی جنون اور عدم اعتماد میں پھنسا ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر تنازعہ جموں وکشمیر ایک دیرینہ اور قدیم ترین مسئلے کے طورپر موجود ہے جو تاحال کشمیر کے بہادر عوام کی امنگوں کے مطابق حل کا منتظر ہے۔ اس قضیہ کی آگ جوہری ”فلیش پوائنٹ” میں بدلنے کا احتمال رکھتی ہے جو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے تباہ کن ہوگا۔یہ خطہ چین اور بھارت کے درمیان جنگی محاذ آرائی، نیپال اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ اور بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان آبی تنازعہ کا مشاہدہ بھی کرچکا ہے۔

سری لنکا نے اپنی تاریخ کے 25 سال میں خونریز بغاوت کا سامنا کیا ہے۔ افغانستان چار دہائیوں سے تنازعے سے گزرتا آرہا ہے۔ ہمیں قومی سلامتی حکمت عملی میں انسانی سلامتی کو مرکزیت دینے کی ضرورت ہے۔ یعنی سلامتی پر مبنی پالیسیز سے خطے میں ترقی اور خوش حالی کی طرف جانا ہوگا۔ یہ ہے وہ حقیقی چیلنج جس کا آج جنوبی ایشیاسامنا کررہا ہے۔ پاکستان نے اپنی توجہ تبدیل کرکے جیواکنامکس کی طرف مبذول کی ہے۔ خطے کو جوڑنا آج کا وہ لفظ ہے جسے مرکزیت ومقبولیت حاصل ہے۔ یہ ہمیں قومی اور علاقائی ترقی کے لئے بے پناہ مواقع فراہم کرسکتا ہے۔ پاکستان کراچی اور گوادر بندرگاہوں کے ذریعے چین کے مغربی حصوں اور وسط ایشیائی جمہوریتوں کی عالمی سمندروں تک رسائی کا مختصر ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔

پاکستان اور چین کی سدا بہار سٹرٹیجک کوآپریٹو شراکت داری کا طرہ امتیاز چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)رابطوں کی استواری کا ایک بہترین اور مثالی منصوبہ ہے۔پاکستان کی معاشی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سی پیک خطے کو جوڑنے کیلئے بھی ایک اہم راستہ ہے۔جنوبی ایشیاکی خوش حالی کے لئے خطے میں علاقائی تعاون لازم ہے۔سارک کو تنگ نظر سیاسی ایجنڈوں سے آزاد کرکے زندہ وفعال کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے خطے کے اندر تجارت انتہائی کم ہے،تجارت، شاہراتی نظام اور رابطوں میں حائل رکاوٹیں اور پابندیاں دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔پاکستان نے کسی عالمی یا علاقائی تنازعے کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے اور صرف امن وترقی میں شریک کار رہنے کی راہ منتخب کی ہے۔پاکستان اجتماعیت اور تعاون کی حامل سوچ وفکر پر مبنی وسیع تر معاشی واقتصادی شراکت داری پر زور دے رہا ہے۔

بہت سارے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو معاشی سٹرکچرل وجوہات سے پیدا ہونے والے بہت سارے غیرروایتی سکیورٹی مسائل کا سامنا ہے جن میں ماحولیاتی تغیر، غذا، توانائی اور آبی بحران، آبادی میں اضافے، بے محابہ شہروں کے بڑھنے اور غربت جیسے مسئلے شامل ہیں۔نہایت فوری نوعیت کی تشویش کا باعث بننے والا مسئلہ، ماحولیاتی تغیر کا ہے جس کے براہ راست اثرات غذا اور آبی سلامتی پر ہوتے ہیں۔عمران خان حکومت قومی سلامتی کے لیے، لاحق اس سنگین خطرے کا اداراک کرتے ہوئے ان اثرات کو کم سے کم کرنے کے لئے کوششیں کررہی ہے۔تجارت وسرمایہ کاری، انفراسٹرکچر کی ترقی، انرجی سکیورٹی، زراعت، سیاحت میں تعاون اور عوامی رابطوں میں اضافہ ہماری ترجیحات ہیں۔

ہماری بنیادی دلچسپی پرامن اور مستحکم عالمی نظم (انٹرنیشنل آرڈر)ہے جو سب کو اعتماد میں لے کر چلے۔پاکستان پرامن بقائے باہمی، تعاون پر مبنی کثیرالقومیت اور اتفاق رائے کی حامل فیصلہ سازی کے اصولوں کے عزم پر کاربند ہے۔خطے اور دنیا میں امن، ترقی اور خوش حالی کے مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے ہم اجتماعیت کے حامل عالمی نظام (گلوبل آرڈر)کی ہمیشہ حمایت جاری رکھیں گے۔ہم بیانیوں کے دور میں جی رہے ہیں۔

پاکستان کے بیانیوں کی تشکیل اور ان کا فروغ ہم سب کے لئے ایک قومی ذمہ داری ہے۔ فیصلہ سازوں اور محقیقین کے درمیان خلیج کو پاٹنا ہوگا اور اتفاق رائے کے حامل بیانیوں کو پیش کرنا ہوگا، اسلام آباد کانکلیو جیسے فورمز اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔میں اس مجلس سے سامنے آنے والی سفارشات سے استفادہ کے لئے منتظر ہوں۔میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔