ہر طرف رنگا رنگ غبارے، تمتماتے چہرے، دمکتی پیشانیاں۔سالگرہ کا بھرپور سماں، اداسیوں کے موسم میں یہ اہتمام کچھ دیر تو غم بھلادیتا ہے۔ پہلے کئی بار ملتوی ہونے والی اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بچوں کے ادب پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس اس پیر سے شروع ہو ہی گئی۔ ’’بچوں کا ادب، ماضی حال مستقبل‘‘۔ راستے رنگوںسےسجے ہیں۔ کہیں خیبر پختونخوا کی ذہانت، کہیں بلوچستان کاتدبر، کہیں سندھ کا ادراک، کہیں پنجاب کی فکر،گلگت بلتستان کی دانش، آزاد کشمیر کا تمدن۔یہ کانفرنس سرکاری طور پر بچوں کے ادب پر پہلی کانفرنس کہلا سکتی ہے۔ ادبی کانفرنسوں اور آج کل لٹریری فیسٹیول میں ایک آدھ نشست بچوں کے ادب ککیلئے رکھ دی جاتی ہے۔ لیکن پورے تین روز بچوں کے ادب کیلئے مختص کرنے کی سرکاری سعادت ڈاکٹر یوسف خشک کے حصّے میں آئی۔
میں جب بھی دوسرے ملکوں میں جاتا تو ننھے منے بچوں کیلئے،3سے 5سال، 5سے 8، 8سے 12سال کیلئے کتابیں سجی ہوتیں۔ ان کتابوں کے پس منظر میں کتنی تحقیق اور کتنے رت جگے ہوں گے۔ عمر کے مختلف مراحل کیلئے بچوں کے ذخیرۂ الفاظ۔ ذہانت کے اعتبار سے الفاظ کا چنائو۔ بچوں کی کتابوں کے ناشرین۔ اپنے تعلیمی ماہرین سے بھی رابطہ رکھتے ہیں۔ محکمۂ تعلیم سے بھی۔ بچوں کیلئے کتابوں کا یہ اہتمام میں نے اپنے پڑوس بھارت میں بھی دیکھا۔ ایران میں بھی، لندن، پیرس، برسلز، کوپن ہیگن، واشنگٹن، نیو یارک، ٹورنٹو اور ادھر ایشیا میں تھائی لینڈ میں بھی۔ یہ قومیں اپنے مستقبل کے تحفظ، تزئین و زیبائش کیلئے فکر مند رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی50، 60اور 70کی دہائیوں میں کتابوں کی دکانوں میں اسکولوں میں ایسے سلسلے اور لائبریریوں میں یہ ترتیب دکھائی دیتی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ ہم اپنے مستقبل سے اپنے بچوں سے بے نیاز ہوتے چلے گئے۔ اسلئے اب ہر قسم کے بحران ہمارا منہ چڑارہے ہیں۔ میرے ایک جانب بلند قامت انجینئر امیر مقام ہیں۔ مشیر وزیراعظم برائے سیاسی، عوامی اور قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن اور دوسری طرف ڈاکٹر یوسف خشک چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان۔ اسی صف میں سینیٹر عرفان صدیقی جو اب سینیٹ کی ایک مجلس قائمہ کے سربراہ بھی ہیں۔ فارینہ مظہر سیکرٹری ورثہ و ثقافت ڈویژن اور مقبول شاعر ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد۔ ہمارے سامنے ملک کا مستقبل ہے۔ اسکولوں کے بچے بچیاں اور پاکستان بھر سے آئے ہوئے بچوں کیلئے لکھنے والے، ادیب، شاعر، اسلام آباد پنڈی کے وہ مانوس چہرے جن کی عمریں حرف و دانش کے دشت کی سیاحی میں گزر گئیں۔
اسی سال مئی میں یہ کانفرنس پشاور سے آنے والے لانگ مارچ کی آہٹوں کے باعث ملتوی ہوگئی تھی۔ اب کے لبرٹی چوک لاہور سے لانگ مارچ چل پڑا تھا۔ لیکن اسلام آباد پہنچنے میں کافی دن تھے۔ اسلئے کانفرنس کا انعقاد کرلیا گیا۔ حقیقی آزادی کے مارچ کی چاپیں اسلام آبادمیں سنائی دے رہی ہیں۔ لیکن میں نے ایک دن اسلام آباد کے جس حصّے میں گزارا وہاں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ کنٹینروں سے بہت دور۔ چینلوں پر جو اسلام آباد دکھایا جاتا ہے ہم اس طرف نہیں جاسکے۔ ٹی وی چینل ایک طرف ہزاروں کے ہجوم کو رواں دواں دکھاتے ہیں۔ دوسری طرف دن بھر میں لاتعداد پریس کانفرنسوں کا ہجوم۔ میں شہید ارشد شریف کے گھر پر بھی تعزیت کیلئے حاضر ہوا۔
صد شکر کہ ہم بچوں کے ،من کے سچوں کے درمیان بیٹھے ہیں۔ مجھے فریدہ حفیظ نظر آرہی ہیں۔ فرحین چوہدری، ضیاء الدین نعیم، ڈاکٹر ذوالفقار سیال، انور مہرانوی، ڈاکٹر فاطمہ حسن، محمودہ غازیہ، بابرک کارمل، صوفیہ خشک، ڈاکٹر جاوید منظر، ڈاکٹر جاوید اقبال، اختر سلیمی اور بہت سے شناسا چہرے۔یہ سب اہل قلم و حرف تعلیم و تربیت کھلونا، نونہال، بچوں کی دنیا، پھول، آنکھ مچولی، بچوں کی باجی، ’ٹوٹ بٹوٹ‘، ہونہار، پڑھ کر جوان ہوئے ہیں۔ ان کے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی میگزین ہوتے تھے۔ جہاں انہیں اپنی تخلیقی قوت کے اظہار کا موقع ملتا تھا۔ اب زمانے کی رفتار بدل رہی ہے۔ اب آڈیو ویڈیو کا دَور ہے۔ یو ٹیوب آپ کا وقت لے رہی ہے۔ یہ سل کتاب کے اوراق کو کم وقت دیتی ہے۔ ’اسکرین ٹائم‘ ان کا زیادہ ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اب کہانیاں، نظمیں، اقوال زریں، خاکے، کارٹون ہم اسکرین پر لے آئیں۔ ہر روزنامے میں بچوں کا صفحہ ہوتا تھا۔ روزنامہ جنگ نے تو ماہنامہ ’بھائی جان‘ کئی سال جاری رکھا۔ ہمارے شفیع عقیل اس لئے بھائی جان کہلاتے تھے۔ ’جنگ‘ کی نونہال لیگ نے کتنے لکھنے والے، لکھنے والیاں پیدا کیں۔
میں نے اپنا کلیدی مقالہ پیش کرنے کے دوران بچوں اور بڑوں دونوں کو بہت متوجہ پایا۔بچوں کے ادب کی اہمیت کا نتیجہ تھا کہ بچوں کی بھرپور موجودگی کہ انجینئر امیر مقام اور عرفان صدیقی پورا وقت موجود رہے۔ میں نے کچھ تجاویز دی تھیں کہ سرکاری ایوارڈز میں بچوں کے ادب کو بھی شامل کیا جائے۔ بچوں کیلئے لکھنے والوں کو بھی حسن کارکردگی کے تمغے ملنے چاہئیں اور اسکولوں کے بچوں میں بھی کہانیاں نظمیں لکھنے کے مقابلے کیے جائیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کا ایک چینل صرف بچوں کیلئے مخصوص کیا جائے۔ انجینئر امیر مقام نے بہت سنجیدگی سے ڈاکٹر یوسف خشک سے اپنے اسٹاف کے مشورے کیے اور پھر اپنی تقریر میں یہ اعلانات بھی کردیے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ تمام تر سیاسی انتشار کے باوجود ہماری نئی نسل اپنے طور پر بہت آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ جنہیں آج کی اصطلاح میں Starts up کہا جاتا ہے۔ وہ بہت قابل ہیں اور بہت خوش خیال بھی۔ ہمارے پڑوس بھارت میں اس نسل کا برا حال ہے۔ وہاں کے دانشورا نکو No Where Generation کہتے ہیں۔ یا ’ٹائم پاس نسل‘۔ ہمیں اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہماری نئی نسل بہت سنجیدہ ہے، بردبار ہے۔
ہماری یونیورسٹیاں، سرکاری محکمے اگر بچوں کیلئے ادب،کتابوں،درسی کتابوں پر بحیثیت قوم توجہ دیں ہماری اجتماعی زبان اُردو میں لکھی گئی کہانیاں، مضامین، نظمیں، قومی زبانوں، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری، گلگتی اور سرائیکی زبانوں میں منتقل کی جائیں۔ ان زبانوں میں بچوں کیلئے تخلیق کیے گئے ادب کو اُردو میں منتقل اور ڈیجیٹلائز کیا جائے تو ہم آئندہ پانچ چھ برس میں ایک قومی مزاج تشکیل کرسکتے ہیں۔ جس یکجہتی کی آرزو رکھتے ہیں وہ پاسکتے ہیں اور جس حقیقی آزادی کیلئے لانگ مارچ کرتے ہیں وہ بھی بچوں کی ذہن سازی سے حاصل ہوسکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ