آئین کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی ہوگی، خواجہ آصف


اسلام آباد(صباح نیوز وزیر دفاع خواجہ آصف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کے پی کے میں سوات اور شمالی علاقہ جات میں 2009 اور 2010 کے حالات واپس پیدا ہورہے ہیں،سوات کی صورتحال مقامی حکومت کی ناکامی ہے،آرمی چیف کی تعیناتی آئین کے مطابق ہوگی۔ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ سوات میں کسی فوجی آپریشن کے آغاز کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، ابھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم کے پی کے میں سوات اور شمالی علاقہ جات میں دوہزار نو دوہزار دس کے حالات واپس پیدا ہورہے ہیں۔

وزیردفاع نے کہا کہ اس کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں اور عوام خود اب ساری صورتحال پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، دہشت گردی اور انتہا ہسندی کے خلاف عوام کا سڑکوں پر نکل آنا بہت حوصلہ افزا ہے۔انہوں نے کہا کہ سوات کی صورتحال بنیادی طور پر وہاں کی حکومت کی ناکامی ہے۔رہنما مسلم لیگ نواز کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ صورتحال پر قابو پالیا جائے گا، ہم نے اپنے کئی فوجی جوانوں کی قربانیاں دی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے بہت اہم ہے، ایسے ہی پاکستان کے امن کے لیے بھی افغانستان کی اہمیت ہے، پچھلے 3 مہینوں میں بھی ہم نے اپنے کئی فوجی جوانوں کی قربانیاں دی ہیں، تین دہائیوں سے سکیورٹی فورسز فرنٹ لائن پر لڑرہی ہیں۔وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر ابھی کچھ طے نہیں ہوا،

سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور فیک نیوز اس وقت سب کا مسئلہ ہے، میڈیا ایک حقیقت ہے لیکن انحصار اس پر ہے کہ اس کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے، میڈیا موسمیاتی تبدیلی کی آگاہی سمیت کئی اہم امور میں کارآمد ہے۔انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے معاملے میں سیاسی بحث نہیں ہونی چائیے اور اب تو فوج خود کہہ رہی ہے ہم نیوٹرل ہیں۔آرمی چیف کے معاملے پر خواجہ آصف نے کہا کہ آئین کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع کا کہنا تھا مودی سرکار میں مسلمانوں کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، ایران میں مظاہرے ایران کا اندرونی مسئلہ ہے، کسی کے بھی بنیادی حقوق کی عزت ہونی چاہیے، بھارت کی منافقت ہے کہ بھارتی ٹی وی چینلز پر ایران کے لیے تو بات کی جا رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال پوری دنیا کے سامنے ہونے کے باوجود بھارتی ٹی وی چینلز اس پر خاموش ہیں۔