مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے۔ معاشی کساد بازاری کا سامنا پوری دنیا کو ہے اور اس کی وجہ کورونا ہے ،جس نے کئی سال ہر پہیہ جام کر کے معیشت کو بے دست و پا کر دیا۔ دنیا کو اس کے حصار سے نکلنے کے لئے نئی منصوبہ بندی کرنی پڑے گی جس میں امن، خیر اور تعمیری سوچ کو بنیاد بنانا ہو گا۔ آئی ایم ایف کے بڑھتے ہوئے مطالبات کا سارا ملبہ غریب کی جیب پر پڑ رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ان بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں کو پرکھتے ہیں جن سے غریب کا سانس چلتا ہے۔ گھی، آٹا، تیل خریدنے والوں کو ملکوں کا نقصان بھرنا پڑتا ہے۔ قومیں وہی نامور ہوتی ہیں جو چیلنج قبول کرتی ہے۔ ہمیں ایک پیج پر ہونا پڑے گا۔ اپوزیشن بھی اگر کچھ مہینے صبر کر لے اور احتجاج ملتوی کر دے تو بہتر ہو گا کیوں کہ روٹی ہو گی تو نعرہ لگے گا۔
ملک میں شدید معاشی مسائل پیدا ہو چکے ہیں مگر اب تک حکومت اور عوام ایک پیج پر نہیں آ سکے۔ اس کے لئے حکومت کو فوری طور پر ہنگامی حالات کا اعلان کرنا چاہئے اور اک بھرپور مہم شروع کرنی چاہئے۔ ایک دوسرے کی خامیاں خوبیاں گنوا کر مقابلہ کرتے رہے تو اس سے حاصل کچھ نہیں ہو گا۔ کچھ اصلاحات کا فوری نفاذ کرنا پڑے گا۔ اس وقت بجلی کی کمی سنگین مسئلہ ہے۔ اگر بجلی نہیں ہو گی تو نہ صرف گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگ تنگی کا شکار ہوں گے بلکہ ہماری صنعتیں بھی رُک جائیں گی، کاروبار رُک جائیں گے اور زراعت پر برا اثر پڑے گا۔ بجلی کی کمی کو سولر کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے کام کا آغاز کرتے ہوئے سرکاری اداروں میں سولر سسٹم پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ لگانے کے لئے ،بجلی کی مانگ اور دیگر اعداد و شمار اکٹھے کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ان اخراجات کی سرکاری اداروں کیلئے بجلی کی مد میں مختص بجٹ سے بھی ادائیگی کی جا سکتی ہے کیوں کہ جب وہ سولر کے ذریعے خود بجلی پیدا کریں گے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ واپڈا کو بھی کچھ بجلی فراہم کر سکیں کیونکہ دفاتر میں دن کے وقت ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سارا سال دھوپ اور شدید دھوپ کا موسم رہتا ہے اس لئے ہمیں اس توانائی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے یہ زرعی اجناس درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت چالیس فیصد کے قریب قابل کاشت رقبہ بے آباد پڑا ہوا ہے۔ زرعی اصلاحات نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان کو زرعی اجناس میں کمی کے باعث غذائی قلت کا سامنا پڑسکتا ہے۔
خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو ہمارے پاس پیسے تو ہوں مگر بازار میں اشیائے خور و نوش کم پڑ جائیں۔ فصلیں اور پھل دار درخت لگائیں تا کہ خوراک کی قلت نہ ہو، لوگوں کو یہ شعور بھی دینا ہو گا کہ وہ گھروں میں سبزیاں اُگائیں۔ مجھے چین میں تنگ گھروں کی کھڑکیوں کے باہر لٹکے ہوئے چھوٹے چھوٹے گملوں میں موسمی سبزیاں اور پھلوں کی بیلیں دیکھنے کا اتفاق ہوا جو خوبصورتی کے ساتھ غذائی ضروریات بھی پورا کرتی ہیں۔ چھتوں پر بھی سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں کے اردگرد خالی پڑی زمین کو بھی استعمال میں لایا جانا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ ہم کسی قحط کا شکار ہوں ہمیں محنت کرنی ہو گی، سرکار کی طرف سے لوگوں کے جذبۂ ہمت اور جدوجہد کو آواز دینی ہو گی اور انہیں اپنے ساتھ لے کر وہ فرق ختم کرنا ہو گا جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ اگر آپ غریب سے قربانی مانگ رہے ہیں تو پھر آپ کو خود بھی کچھ قربانی دینا پڑے گی اور اس کے لیے ہر قسم کا پروٹوکول اور فضول خرچی ختم کر کے سادگی اپنانی پڑے گی تا کہ دیگر بھی اس کی تقلید کریں۔
زراعت کے شعبے کو نظرانداز کرنے کا یہ عالم ہے کہ پچھلے بیس سال سے غیر آباد رقبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ تاہم موجودہ حکومت نے زرعی شعبے کی زبوں حالی کا نوٹس لیتے ہوئے مشینری اور دیگر زرعی اشیاء کو ٹیکس فری کر کے اہم قدم اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ اگر چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کو بجلی مفت فراہم کر دی جائے اور انہیں بھیڑوں، بکریوں اور بھینسوں کے فارمز بنانے کے لئے آسان شرائط پر بلاسود قرضے دیئے جائیں تو ہم گوشت اور دودھ سے بنی اشیابرآمد بھی کر سکتے ہیں۔ زرعی رقبے پر ہائوسنگ کالونیز کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے اور شہر میں آٹھ دس منزلہ فلیٹوں کا سسٹم متعارف کر کے کم جگہ پر زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ تھر اور چولستان میں سے ہندوستان کی طرح نہریں گزار دی جائیں تو یہ علاقہ ہرا بھرا اور زرخیز ہو سکتا ہے جس کا ہماری معیشت پر بہت مثبت اثر پڑ سکتا ہے اور وہاں کے لوگ بھی خوشحال ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ زمین میں پہلے ہی پانی کی سطح کم ہو چکی ہے اس لئے بارش کا پانی سنبھالنے کا چارہ کیا جائے اور نئے ڈیم بنانے کو ترجیح دی جائے۔ نہروں پر کافی رقبہ خالی پڑا ہوا ہے وہ رقبہ آباد کاشتکاروں کو دے کر قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔ بجلی کی فوری طور پر کمی پورا کرنے کے لئے بازاروں کورات 9 بجے بند کرنے کا فیصلہ بہت خوش آئند ہے۔ اس سے بجلی کی بچت بھی ہو گی اور چوریوں اور دیگر جرائم میں بھی کمی آئے گی۔ لوگوں کے رویے تبدیل ہوں گے۔ لوگ سورج کی روشنی میں کام کرنے کی طرف مائل ہوں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ