ملکی سنگین معاشی صورت حال کے پیش نظر فوری طور خصوصی اور بڑے مالیاتی اقدامات کیے جائیں،جماعت اسلامی کا مطالبہ


لاہور(صباح نیوز)جماعت اسلامی پاکستان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انتہائی گھمبیر معاشی صورت حال کے پیش نظر فوری طور پر ملک میں خصوصی اور بڑے مالیاتی اقدامات کیے جائیں اور اس مرتبہ عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے صرف مراعات یافتہ اشرافیہ سے قربانی لی جائے، پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافے کو واپس لیاجائے۔خود انحصاری پالیسی کے تحت عملی اقدامات کرتے ہوئے مقامی انڈسٹری کو پروموٹ کیاجائے،مقامی کاروباری طبقے کو ایف بی آر کے ظلم سے بچانے کے عملی اقدامات کیے جائیں ۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق حکومت سودی معیشت ختم کرے ۔سودی قوانین ختم کرکے متبادل قانون سازی کی جائے، مرکزی مجلسِ شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کے اجلاس میں  معاشی صورتحال پر منظور کی گئی قراردادمیں کہا گیا ہے  کہ10اپریل 2022ء کو ہونے والی حکومتی تبدیلی اور ماضی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی پارٹیوں کے برسراقتدار آنے کے باوجود مہنگائی، بے روزگاری اور بدترین معاشی پالیسیوں کا سلسلہ اسی طرح بلکہ پہلے سے بھی بدتر شکل میں جاری ہے۔

قرارداد میں کہاگیا ہے کہ سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے بھی اپنی نااہلی ، بدترین طرز حکمرانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو عملاً عالمی ساہوکارمالیاتی اداروں یعنی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا غلام بنا دیا ہے اورقوم میں یہ احساس مسلسل بڑھ رہاہے کہ ان کی قسمت کے فیصلے ملک سے باہر ہو رہے ہیں۔ قرضوں کے حصول کے لیے ہر طرح کی کڑی شرائط قبول کی جارہی ہیں۔ جن کی وجہ سے عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کا مسلسل سامنا کرناپڑ رہاہے۔ آئی ایم ایف سے جاری پروگرام نے ملک میں کسا د بازاری کا ماحول پیداکردیا ہے اور اسی پروگرام کے دباؤ پر ماضی وحال کی حکومتوں نے اسٹیٹ بینک پر اپنی خود مختاری ختم کرکے اس کو عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں کی مرضی ومنشاپر چھوڑ دیا ہے۔ گورنرسٹیٹ بینک کی تقرری ، احتساب ، تنزلی کارکردگی روپے کی قدر اور بنک کی مالیاتی پالیسیوں کے سلسلہ میں خود قانون ساز ی کرکے اپنے ہاتھ کاٹ دیے گئے ہیں۔ اب سٹیٹ بنک محض نام کی حد تک سٹیٹ بنک آف پاکستان ہے۔

مزید برآں اس پر وگرام کے تحت اب تک حکومت ایک ہزار ارب روپے کے ٹیکسز لاگو کرچکی ہے اور اس نے اگلے بجٹ میں مزید 300ارب کے ٹیکس لگانے کاوعدہ کیاہے۔ آئی ایم ایف کے احکامات کو بجا لانے کے لیے حال ہی میں حکومت نے ایک اعشاریہ پچاس فیصد شرح سود میں اضافہ کردیا ہے اور اب شرح پندرہ اشاریہ پچیس (15.25)فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اتنی بڑی شرح سود کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری پر شدید برے اثرات مرتب ہوں گے اور معاشی ترقی کاعمل رک جائے گا۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے باوجود ملک کو اگلی قسط جاری نہیںکی گئی اور اس کے لیے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی مزید شرط لگادی ہے۔ اسی طرح حکومت کو معاشی مسائل پر قابو پانے اور ملک و قوم کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے بہت بڑا انقلابی اور گیم چینجر سہارا یہ مل گیاہے کہ 28اپریل 2022ء بمطابق 26رمضان المبارک 1443ھ کو وفاقی شرعی عدالت نے سودکی ہر شکل کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو سودی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کاواضح ہدف دے دیا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کے غلام اور امریکہ سے مرعوب حکمرانوں نے اس فیصلے کو تسلیم کرکے اس پر من و عن عمل کرنے کی بجائے اللہ و رسول کے خلاف نعوذباللہ جنگ جاری رکھنے کافیصلہ کیاہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ و رسول سے کوئی بھی جنگ نہیںجیت سکتا ۔

چنانچہ حکمران خدا نخواستہ قوم کو سری لنکا جیسے حالات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ادارہ شماریات پاکستان کے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اشیائے صرف کی قیمتوں میں متعدد مرتبہ بدترین اضافوں کی وجہ سے سابقہ و موجودہ حکومت کے ادوار میں اکثر اشیاء کی قیمتیں دوگناہی نہیں تین گناہو چکی ہیں۔اس وقت پاکستان کی پوری تاریخ کی بدترین مہنگائی قوم پر مسلط ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 4فیصد کمی کے باوجود پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا یعنی ایک ہفتہ میں 60روپے فی لیٹر کااضافہ کیاگیا ہے نیز ایک مرتبہ پھر بجلی کی قیمت بھی 8روپے فی یونٹ بڑھا دی گئی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں بھی 45فیصد اضافہ ہواہے۔ آٹا،چینی ،خوردنی تیل ، پٹرولیم مصنوعات ،کھاد ، ادویات وغیرہ کی قیمتیں متعدد مرتبہ کے اضافوں کی وجہ سے آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ عوام کے گھروں کے چولہے سرد ہیں۔ لوگ بھوک کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور بنادیے گئے ہیں۔ یقیناً بھوک سے ستائے اور غربت کے مارے عوام کی آہیں اور بددعا ئیں عرش الٰہی کو ہلا رہی ہیں۔

سابقہ و موجودہ حکومت نے توانائی بحران پیداکرکے IPPSکو عوام سے 350ارب روپے لوٹنے کی کھلی چھٹی دی ہے۔ ایل این جی سیکنڈل کے ذریعے 100ارب روپے لوٹے گئے ہیں ۔ ادویات کی قیمتوں میں 13مرتبہ اضافہ ہواہے۔ سنگ دلی کی انتہا یہ ہے کہ کووڈ کے امدادی فنڈ میں سے بھی 100ارب روپے لوٹ لیے گئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری معیشت کی گاڑی اناڑی ڈرائیور وں کے ہاتھوں تیزی سے ڈھلوان پر جارہی ہے اور بد قسمتی سے اس کی بریکیں بھی فیل ہوچکی ہیں۔کرپشن کے معاملات دونوں حکومتوں کے ادوار میں برق رفتاری سے بڑھے ہیں۔ دونوں حکومتوں کا اس بارے میں یکساں طرز عمل ہے اور کرپشن کی روک تھام میں انٹی کرپشن ، نیب ، ایف بی آر پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں سمیت تمام ادارے مکمل طور پر ناکام ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت کا ایک ڈالر بھی قومی خزانے میں واپس نہیں آیا جبکہ قوم کو کبھی پانامہ لیکس کے ذریعے 436اور پنڈورالیکس کے ذریعے 700سے زائد کرپٹ پاکستانیوں کے نام معلو م ہوتے ہیں۔منفی مقاصد کے تحت احتسابی قوانین بھی بدلے جارہے ہیں۔

کرپٹ افراد کے خلاف حکومت نیب یا کسی ادارے نے کوئی کاروائی نہیں کی جبکہ یہ صرف جماعت اسلامی ہے جس نے کرپشن فری پاکستان تحریک چلائی ۔ کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کیا ، دھرنے دیئے۔ عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کرپٹ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ اس نے اپنے خلاف عملاً کوئی کاروائی نہیں ہونے دی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی اللہ کاشکراداکرتی ہے اور قوم کو باور کرانا چاہتی ہے کہ اس کے کسی ایک فرد کے خلاف بھی کرپشن کا کوئی جھوٹاالزام تک بھی موجود نہیں۔ بدترین معاشی صورت حال کمر توڑ مہنگائی ، مسلسل بڑھتی ہوئی بے روز گار ی ، غربت وبدحالی اور قرضوں کی بھرمار کابڑا سبب سودی معیشت ہے۔ سود کے خلاف اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ جب کہ حکمران قوم کو رزق حرام کھلانے اور سودی معیشت کو برقرار رکھنے پر بضد ہیں ۔ مختلف معاشی ماہرین کے مطابق قومی قرضہ 45ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔

اس میں سے 20ہزار ارب کا قرضہ عمران حکومت نے اضافہ کیاہے۔ جبکہ اس نے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ قرضوں پر انحصار نہیںکریں گے اور پہلے مرحلہ پر قرضوں کی مقدار میں زبردست کمی کریں گے۔لیکن قوم کی بد قسمتی اوردونوں حکومتوں کی ڈھٹائی یہ ہے آئندہ سال کے بجٹ میں چار ہزار ارب روپے سودکی ادائیگی کے لیے مختص کیے جارہے ہیں جو بجٹ کا 40فیصد سے زیادہ ہوگا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ دنیامیں افراط زر کو روکنے کے لیے سود کی شرح کم کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج مغربی دنیا میں شرح سود 1.50فیصد کے قریب ہے۔ لیکن عمران حکومت نے ایک طرف قوم کو سٹیٹ بینک کی بجائے کمرشل بنکوں کامقروض کردیاہے۔ دوسری طرف شرح سود 7فیصد سے بڑھا کر 13.75فیصدکردیاہے جس کے نتیجے میں افراط زر میں ناقابل تصور اضافہ ہوا جبکہ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر میں ناقابل تصور کمی ہوئی اور اب ڈالر کاتبادلہ ماضی کے 122کی بجائے 200روپے میں ہوتاہے۔ جماعت اسلامی نے اپنی قرارداد میں کہا ہے کہ آج پاکستان کابڑامسئلہ بدترین مہنگائی اور ظالمانہ کرپشن ہے۔

جماعت اسلامی نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے سودی معیشت آئی ایم ایف کی غلامی منی بجٹ ، سٹیٹ بنک کی خود مختاری اور بدترین مہنگائی کے خلاف سینٹ آف پاکستان اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مسلسل آواز اٹھائی ہے۔اسی طرح سود کے خلاف مسلسل عدالتی جنگ کے بعد حرمت سود کا تاریخی فیصلہ حاصل کیاہے۔ نیز جماعت اسلامی ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے دکھ کے مارے عوام کی آواز کو بلند کررہی ہے ۔ قراداد میں مرکزی مجلس شوریٰ نے  مطالبہ کیا کہ انتہائی گھمبیر معاشی صورت حال کے پیش نظر فوری طور پر ملک میں خصوصی اور بڑے مالیاتی اقدامات کیے جائیں اور اس مرتبہ عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے صرف مراعات یافتہ اشرافیہ سے قربانی لی جائے۔ ١۔ تمام سول و ملٹری بیوروکریسی ،ممبران پارلیمنٹ ، وزراء اور ججز حضرات سے شاہانہ مراعات واپس لی جائیں۔ ٢۔  مفت پٹرول ،بجلی اور اور بڑی بڑی سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر فی الفور پابندی عائد کی جائے۔ نیز پروٹوکول اور سیکورٹی گاڑیوں کااستعمال بھی ختم یا محدودکیاجائے ۔وزیراعظم کے کئی کیمپس آفس ختم کیے جائیں۔

٣۔ سرکاری اداروں اور افواج پاکستان کے غیر ترقیاتی اخراجات میں فی الفور 30فیصد کمی کی جائے۔ ٤۔ ملٹی نیشنل کمپنیز و دیگر صنعتی وتجارتی کمپنیوں کو نیشنل گرڈ سے سولر پر منتقل کیاجائے۔ ٥۔ سولر سسٹم برائے گھریلو استعمال و رفاحی و تعلیمی مقاصد کے لیے آسان اقساط پر بلاسود قرضے دیئے جائیں۔ ٦۔  پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافے کو واپس لیاجائے۔٧۔     خود انحصاری پالیسی کے تحت عملی اقدامات کرتے ہوئے مقامی انڈسٹری کو پروموٹ کیاجائے۔ ٨۔ مقامی کاروباری طبقے کو ایف بی آر کے ظلم سے بچانے کے عملی اقدامات کیے جائیں۔

٩۔ بڑی گاڑیوں ،کا سمیٹکس اور اشیائے تعیش کی درآمد بند کی جائے۔ ١٠۔ گزشتہ 6ماہ میں عائد زائد ٹیکسوں کو ختم کیاجائے۔ ١١۔  وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق حکومت سودی معیشت ختم کرے ۔سودی قوانین ختم کرکے متبادل قانون سازی کی جائے۔١٢۔ حکومت حرمت سود کے فیصلہ کے خلاف نہ خود اپیل کرے نہ کسی بنک یا فرد کو اپیل کرنے کی اجازت دے ۔ نیزحکومت اور سٹیٹ بنک واضح اعلان کرے کہ کنونشنل بنکنگ کا خاتمہ کیاجائے گا صرف اسلامی بنکاری کی اجازت ہوگی۔ یہ اجلاس تمام کمرشل بنکوں اور انویسٹمنٹ کمپنیوں پر واضح کرتا ہے کہ جوبنک امتناع سودکے فیصلے کے خلاف اپیل پر گیا تو اس کامکمل بائیکاٹ کیاجائے گا اور کھاتے داروں کواس بنک سے اپنے کھاتے ختم کرنے کی اپیل کی جائے گی۔

١٣ سٹیٹ بنک ترمیمی بل واپس لیاجائے اور متبادل قانون سازی جائے ۔ قرارداد میں کہاگیا ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان نے محض تنقید کرنے کی بجائے معیشت کی بہتری کے لیے ہمیشہ متبادل تجاویز دی ہیں۔ اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف پر انحصار کا خاتمہ،سودی معیشت سے مکمل نجات ، ارتکاز دولت کی حوصلہ شکنی،حرام ذرائع سے دولت کمانے پر مکمل پابندی،سٹے بازی، قمار بازی، ذخیرہ اندوزی ، شاہانہ اخراجات ،مصنوعی طریقہ سے قیمتیں بڑھانے کے عمل کا مکمل خاتمہ انتہائی ضروری ہے ۔

         ظاہر ہے کہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے قیام کو اپناحقیقی مشن بنانے والی کوئی خداخوف، باصلاحیت، دیانتدار حکومت اوراس کی ماہرین معیشت پر مشتمل ٹیم ہی معیشت میں انقلابی تبدیلی کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان قوم کو یقین دلاتی ہے کہ اگر قوم اسے اپنے اعتماد سے نوازے تو وہ پوری یکسوئی اور محنت سے معیشت کو موجودہ دلدل سے نکال کر ترقی و استحکام کے راستے پر گامزن کرسکتی ہے۔