پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کی نااہلی کے ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ، کل سنایا جائے گا


اسلام آباد(صباح نیوز) الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کی نااہلی ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو بدھ کو سنایا جائے گا۔ الیکشن کمیشن میں 25 منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کے خلاف ریفرنسز کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سلطان راجا کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران تحریک انصاف اور منحرف ارکان کے وکلا نے حتمی دلائل دیے۔

سماعت کے دوران 10 منحرف اراکین کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل خالد اسحق نے دلائل دیے کہ منحرف اراکین کو یکم اپریل کے پارلیمانی پارٹی اجلاس کا دعوت نامہ ملا نہ ہی ایجنڈا دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ صرف 2 اراکین کو 7 اپریل کو شو کاز نوٹس ملا، اس کے علاوہ دیگر کسی بھی رکن کو کوئی نوٹس نہیں ملا۔

خالد اسحاق نے کہا کہ 18 اپریل کو جو ڈیکلریشن بھجوایا گیا تھا اس کی کاپی بھی اراکین کو نہیں ملی اور اراکین کو اپنا مقف پیش کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں دیا گیا۔الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات یا فیصلہ کہیں نہیں ہے۔وکیل خالد اسحاق نے موقف اپنایا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس سے متعلق بعد میں ایک جعلی دستاویز بنائی گئی، اور عمران خان روزانہ اراکین اور الیکشن کمیشن کی تضحیک کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے ٹھیک کہا ہے کہ فلور کراسنگ سرطان ہے، تاہم ‘پارٹی ڈکٹیٹرشپ’ بھی سرطان ہے۔انہوں نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ اگر پارٹی چیئرمین کی ہدایات کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی نا اہلی نہیں بنتی کیونکہ پرویز الہی کو ووٹ دینے اور ووٹنگ کے دن غیر حاضر نہ رہنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تو ارکان ووٹ دینے کے لیے آزاد تھے جبکہ پارٹی چیئرمین نے کہیں ہدایت نہیں کی کہ بائیکاٹ کی صورت میں مخالف امیدوار کو ووٹ نہیں دیا جائے۔منحرف رکن عائشہ نواز کے وکیل جاوید ملک نے خالد اسحق کے دلائل اختیار کرتے ہوئے بتایا کہ جواب الجواب کے ساتھ عمران خان کے اتھارٹی لیٹر پر دستخط جعلی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ریفرنسز عمران خان نہیں بھجوانا چاہتے تھے۔جاوید ملک نے بتایا کہ پرویز الہی کو الیکشن میں شکست ہوئی اور وہ متاثرہ پارٹی ہیں جبکہ پرویز الہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی جمع تھی۔الیکشن کمیشن کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رکن نے استفسار کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کے ہوتے ہوئے اسپیکر ریفرنس بھجوا سکتے تھے؟ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کہا گیا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات نہیں تھیں جبکہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کا صرف ذکر ہے تفصیل بیان نہیں کی گئی، پارٹی سربراہ یا اراکین کی اکثریت فیصلہ کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دلیل بھی بلاجواز ہے کہ پرویز الہی کے مد مقابل امیدوار کو ووٹ دینے سے منع نہیں کیا گیا کیونکہ یکم اپریل کو تمام اراکین اسمبلی کو پرویز الہی سے متعلق ہدایات دی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں چیف وہپ نے بھی خط کے ذریعے اراکین کو آگاہ کر دیا تھا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان نے فیصلے کے حوالے سے ٹوئٹ بھی کیا جس سے لاکھوں لوگوں نے پڑھا۔

انہوں نے مقف پیش کیا کہ 3 اپریل کو وزیراعلی کا الیکشن نہیں ہو سکا، 4 اپریل کو سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر نے بھی خط کے ذریعے اراکین کو مطلع کیا۔ان کا کہنا تھا کہ منحرف اراکین نے فلیٹیز ہوٹل میں اجلاس میں بھی شرکت کی جبکہ پی ٹی آئی نے ٹی سی ایس کورئیر کی اصل رسیدیں جمع کروا دیں۔

علیم خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس اسٹیج پر اضافی دستاویزات جمع نہیں ہو سکتیں۔ الیکشن کمیشن نے کورئیر کمپنی کی رسیدیں جمع کروانے کی اجازت نہیں دی۔بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے منحرف ارکان کو صفائی کا بھرپور موقع دیا، کسی بھی رکن نے شوکاز کا جواب نہیں دیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے تحریری جواب میں بھی اراکین نے ووٹ دینے کا اعتراف کیا ہے، الیکشن کمیشن میں سماعت کا مقصد یہی ہے کہ اگر پارٹی چیئرمین کے ڈیکلریشن میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو پوری کی جا سکے۔فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا جوبدھ دن 12 بجے سنایا جائیگا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیراعلی منتخب ہوئے تھے جبکہ حریف امیدوار پرویز الہی کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا تھا۔پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہی نے منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کو بھیجے گیے ریفرنس میں منحراف اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کی درخواست کی تھی کیونکہ انہوں نے پارٹی لائن کے خلاف حمزہ شہباز کو ووٹ دیا ہے۔

پی ٹی آئی کے منحرف صوبائی اراکین اسمبلی میں راجا صغیر احمد، ملک غلام رسول، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان، ذوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرا بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گل، عظمی کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم اور فیصل حیات شامل ہیں۔یاد رہے کہ پچھلے ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستا ن  نے پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان قومی اسمبلی سے متعلق ریفرنس خارج کردیا تھا۔