اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کمیشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی


اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کمیشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

 اسلام آباد ہائیکورٹ میں مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے کیس پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کو معاملہ بھیجا گیا ہے اس پر امید ہے کہ میٹنگ میں غور کیا جائے گا۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ میٹنگ اور رپورٹس کی بات نہیں اب ہم نے ان کیسز پر فیصلہ کرنا ہے۔ جب سے یہ معاملہ اس عدالت نے اٹھایا ہے ریاست مسلسل لاتعلق نظرآتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ متاثرہ خاندان اسلام آباد میں احتجاج کرتے ہیں کوئی ان کو نہیں سنتا۔ ریاست کی اس مسئلے پراس لاتعلقی کو کیسے ختم کیا جائے؟ ایک وزارت معاملہ دوسری وزارت پر ڈالتی رہتی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ محض رپورٹس منگواتے رہنے سے کچھ فائدہ نہیں ہونے والا یہ لاحاصل مشق ہے۔عدالتی معاون نے کہا کہ پٹیشنر کہتے ہیں کہ وہ اٹھا کر لے گئے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نہیں، عدالت کیا کرے؟۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عدالتی معاون کو آئین کا آرٹیکل سات پڑھنے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے کہا کہ اگربنیادی حقوق کا معاملہ ہو ریاست ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے تو عدالت کردارادا کرسکتی ہے۔عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ کئی کیسز میں یہ بہت واضح ہے کہ ریاست ان میں شامل ہے۔ اکثر کیسز میں لاپتہ افراد حراستی مراکز میں رکھے گئے۔ محض کسی آرڈر سے یہ معاملہ حل نہیں ہو گا مثر حل کی طرف جانا ہوگا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں لاپتہ افراد ریاست نے اٹھائے ریاست کہتی نہیں۔ کیا اس تضاد کو یہ عدالت سمری کے طور پر دیکھ کر طے کر سکتی؟۔

وکیل لاپتہ افراد کرنل(ر)انعام الرحیم نے کہا کہ عدالتی معاون نے لاپتہ افراد کی چھ اقسام بتائیں۔ ایک ساتویں قسم ان کی ہے جنہیں اٹھا کر خفیہ ٹرائل سے سزا دی گئی۔چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ نے کہا جن کا پتہ چل چکا وہ کہاں ہیں وہ لاپتہ افراد میں نہیں آتے۔

وکیل لاپتہ افراد نے کہا کہ ایسے واقعات بھی ہیں کہ مسنگ پرسنز کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کر کے سزائے موت دی گئی۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ وہ مسنگ پرسنز تو نہ ہوئے، ان کو گرفتار کر کے کارروائی کی گئی۔

کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ وہ لوگ لاپتہ تھے جن کے بارے میں بیان حلفی دیا گیا کہ وہ ایجنسیوں کے پاس نہیں۔ کافی عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ تحویل میں تھے اور ان سویلینز کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی۔

عدالت نے کہا کہ آپ چیزوں کو مکس نہ کریں، جب ان کا ٹرائل ہوا تو وہ لاپتہ نہ رہے۔ یہ بے بس عدالت نہیں کہ صرف پٹیشن کی استدعا کو دیکھے، دیگر چیزیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی آمنہ مسعود جنجوعہ عدالت میں پیش ہوئیں اورجبری گمشدگیوں کے کمیشن کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا کمیشن ڈیڈ اینڈ کی طرف چلا گیا ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ دو سو کے قریب پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے مگر کچھ نہ ہوا، یہ فیملیز کہاں جائیں؟ یہ کیسا کمیشن ہے جو اپنی رپورٹس اور پروڈکشن آرڈر تک نہیں دیتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کمیشن کو ہی ختم کیا جائے جبکہ مفاہمتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔

عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن 1956 کے ایکٹ کے تحت بنا جس کو کوئی اختیارات نہیں دیے گئے۔ ریاست نے ایک پالیسی کے تحت انتہائی کمزور کمیشن بنایا۔ پروڈکشن آرڈروں کی حیثیت بھی محض سفارشی ہوتی ہے۔

عدالت نے لاپتہ افراد کمیشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کمیشن کس طرح بنا؟ ٹی او آر کیا ہیں؟ کتنا عمل ہوا ؟ تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 25 مئی تک ملتوی کردی۔