سیا ستدان اور ایک کھلا ڑی میں بڑا فرق ہو تا ہے،کاش عمران خان اپنی توانائی ملک چلا نے میں استعما ل کر تے،شاہ زین خان بگٹی


اسلام آباد (صباح نیوز)وفا قی وزیر برائے انسدا دمنشیا ت نوابزادہ شاہ زین خان بگٹی نے کہا ہے کہ ایک سیا ستدان اور ایک کھلا ڑی میں بڑا فرق ہو تا ہے ،عمران خان بطورانسان ایک بھلے انسان ہیں مگر ضروری نہیں ہے کہ ایک بھلا انسان اچھالیڈر ہو ، ملک چلا نے کے قابل ہو ، کیونکہ ان کی جو پو ری توانائی تھی وہ چو ر ،ڈاکو، لٹیرا ، اور اب اس میں غدار کا اضافہ ہوا ہے کہنے پر تھی ، اس کے علا وہ کا ش وہ اپنی توا نا ئی ملک چلا نے میں استعما ل کر تے تو شا ید کچھ بہتری ہو سکتی تھی ۔عمران خان نے جو بد اخلا قیا ت سکھائی ہیں جس طرح درس دے رہے ہیں اور جس طرح بار،بار ادا روں کوگھسیٹا جا رہا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ اگرہمارا ساتھ دو گے تو سب ٹھیک ہے اگر ہماراساتھ نہیں دیں گے اور نیو ٹرل رہیں گے تو وہ ادارے ہوں ، عدلیہ ہو ، پا رلیمنٹ ہو، ان کے نزدیک سب غلط ہے اور یہ کہتے ہیں کہ امپورٹڈ حکومت ہے ،کو ئی ان سے یہ پو چھے کون سی امپو رٹڈ حکومت ہے ہمارا تو جینا مرنا پا کستا ن میں ہے، ہما رے پاس امریکی شہریت نہیں ہے ، کوئی ان سے یہ پوچھے کہ آپ کی جو سابقہ کابینہ تھی اس میں جو لوگ تھے ان کی فہرست موجود ہے جن کے پاس امریکی اور برطا نو ی شہریت تھی،اُن کا جواب اِن کے پاس نہیں ہے ، یہ کہتے ہیں امپورٹڈ ، جو امپو رٹڈ کی شرح ان کے پا س موجود تھی اس کا تو یہ پا کستا نی قوم کو جواب دیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست اپنی جگہ پر لیکن بداخلاقیات نہیں ہونی چاہیے، اپنے اداروںاور عدلیہ کااحترام رہنا چاہیئے ۔

ان خیا لا ت کا اظہا رنوابزادہ شا ہ زین بگٹی نے سرکا ری ٹی وی سے انٹرویو میں کیا ۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ جب آدمی مدینہ کی دھرتی کے سفر پر جہاز میں روانہ ہوتا ہے تو وہ احترام کے ساتھ جاتا ہے اور جب مدینہ کی دھرتی پر اترتا ہے تو وہ احترام اور بڑھ جاتا ہے، مسجد نبوی اور روضہ رسول ۖ پر انسان اونچی آواز میں بھی با ت نہیں کر سکتا ، قرآن اور حدیث میں بڑا وا ضح لکھا ہے ،تو وہا ں اگر کو ئی شحص اپنے سیا سی مقا صدکے لئے سمجھے کہ میں بڑا فا ئدہ لے سکوں گا اور خدا نخوا ستہ کسی حکو مت کے وفد کی بے عزتی یا رسوائی کر ائو ں گا تو اس جگہ پر حکو مت کی کو ئی حیثیت نہیں ، کیو نکہ وہا ں پر حضرت محمدۖکا روضہ مبا ر ک ہے تو حکومتوں کی نبی پاکۖ کے سا منے کوئی حیثیت نہیں ہے۔اگرساری دنیا کی طاقتیں آپ کا ساتھ دیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہو تو آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے اور اگراللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو تو ساری دنیا کی طاقتیں بھی آپ کے خلاف ہو کر آپ کا کچھ نہیں کرسکتیں ۔ شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا کہ جس طرح سا بقہ حکو مت کی لیڈر شپ اور ان کی ٹیم نے پاکستانی لو گو ں کو جو درس دیا ہے وہ نظر آرہا تھا اور ہما رے ملک کی جتنی جگ ہنسائی ہو ئی ہے ،اس دن سعودی عرب میں ترکی کا وفد ،افریقی ممالک کے کچھ سربراہان حکومت اور پو ری دنیا سے مسلما ن آئے ہو ئے تھے تو جتنے عالم اسلا م کے لوگ ہیں ان کے دل پر کچھ اچھا نہیں گزرا جو انہو ں نے عمل کیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ردعمل کا خیال تو انسان کے دل میں آتا ہے لیکن اس جگہ پر ردعمل دینے کے حوالہ سے سوچنے اور تصور بھی کرنے کا بھی سوا ل ہی پیدا نہیں ہو تا ، لو گو ں میں آج بھی غم وغصہ پا یاجاتا ہے اور ہم نے لو گو ں کو کہا ہے کہ غصہ نہ کر یں، تیش میں نہ آئیں آپ چھو ڑ دیں، اللہ تعا لی ان کو اس دنیا میں بھی ذلیل ورسوا کرے گا اور آخرت میں تو ہو گا ہی۔  نو ا بزادہ شاہ زین خان بگٹی کا کہنا تھا کہ ان کو چا ہئے تھا کہ اگر انہوں نے کوئی غلط عمل کیا تھا تو انہیں چاہیئے تھا کہ پو ری مسلما ن دنیا سے معافی ما نگتے کہ ہما رے لو گو ں نے جو حرکت کی ہے ہم شرمندہ ہیں مگر وہ نہیں کیا اورالٹا لو گو ں سے اس کی توجیح پیش کروارہے ہیں جس سے ان کی پو زیشن اور خراب ہوئی ہے اور لو گو ں میں مزید غم اور غصہ اور نفر ت ان کے لئے آرہی ہے اور اس کے سا تھ ساتھ سا بقہ وزیر اعظم نے یہ کہا کہ یہ عمل تو ہم نے نہیں کیا مگر جو ہوا ہے اس طرح کی چیزیں تو ہونی ہے پا کستا نی حکو مت کا وفد جہاں جائے گا تو پو ری دنیا میں اس کا سامنا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نے دعوے تو بڑے کئے ، ریا ست مد ینہ کا بھی دعویٰ کیااورسعودی عرب جا کر جو احترام دکھایا یہ تما م چیزیں ایک طرف مگر جوعمل انہو ں نے کر وایا ہے اس کی مثا ل تا ریخ میں نہیں ملتی ، اس کے علا وہ ریا ست مد ینہ میں حضرت عمر فا روق کے دور میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر دریا کے کنا رے ایک پیاسا کتا ہو تو اس کی پو چھ بھی اللہ تعالی مجھ سے کریںگے ، عمران خا ن کی حکومت کی دور حکو مت میں جن لو گو ں کے منہ سے روٹی کے نو الے چلے گئے تو کیا اللہ تعالی کے ہا ں اس کی بخشش ہے ، کفا ر کا نظا م چل سکتا ہے ظا لم کی حکومت اللہ تعا لی نہیں چلنے دینگے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے عدم اعتما د سے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ آپ پیٹرول مصنو عات پر آپ سبسڈی دے رہے ہیں اگر آٹے پر سبسڈی دیںیہ اتنا بڑا عمل ہوگا کہ لو گ آپ کے سا تھ کھڑے ہوں گے تو انہو ں نے کہا کہ نہیں ہم پیٹرول پر سبسڈی دینگے ،جب عوام اور حکمران میں فا صلہ آجا ئے تو وہ حکو مت نہیں چل سکتی ۔

شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا کہ جہاں تک بلو چستان کی تر قی کی بات ہے،دیگر صوبوں میں جس طرح کی ترقی ہے اس کا بلوچستان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، دوسری چیز جہا ں تک بلو چستا ن کی محرومیوں کی با ت ہے اس میں سر فہرست بلو چستا ن کی سوئی گیس کا ذخیرہ ہے جس کا پو رے ملک میں استعما ل ہو تا ہے ہم اس کے مخا لف نہیں ہیں ہم نے تر قی کی ہمیشہ حما یت کی ہے ، شہید وطن نو اب اکبر بگٹی نے بھی اس کی حمایت کی ہے،-52 1951میں گیس نکلی، اگر ہم مخا لف ہو تے تو ہم یہ گیس نکلنے ہی نہ دیتے ،بلوچستان کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم بالکل اس کے مخالف نہیں اور کوئی اس کو منفی انداز میں نہ لے، گیس پہلے خیبر صوبہ سرحد پہنچتی ہے اور1980کی دہا ئی میں کو ئٹہ پہنچتی ہے توکچھ حد تک لو گو ں کے گلے شکو ے درست ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ  لوگ کہتے ہیں گیس بقایاجات،ہم کہتے ہیں سندھ ، پنجا ب ، خیبر پختونخوا ، بلو چستان میں گیس نکلتی ہے جو بلو چستان میںگیس کی قیمت رکھی گئی ہے نہ اس کا مو زانہ سندھ کے سا تھ ہے اور نہ پنجا ب کے سا تھ ہے میر ا خیا ل ہے وفا ق کی نظروں میں صوبے تو برابر ہو نے چا ہیں اور کوئی بھی پروڈکٹ صوبہ پیدا کرتا ہے تو برابری کی شرح پر ان کی قیمت رکھی جا نی چا ہئے، بلوچستان کی تین گنا کم ہے جس کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ 1950سے آج تک وفا قی حکو مت بلو چستا ن کے گیس بقیہ جا ت کا مقروض ہے اور نو اب اکبر بگٹی نے کہا تھا کہ یہ پیسے میں اپنی ذات یا قبیلے کے لئے نہیں ما نگ رہا یہ پو رے بلو چستا ن کی ترقی پر خرچ کر یں ، ہسپتا ل ، روڈ ، یو نیو رسٹی ، کا رخا نے بنا ئیں جو حکو مت بلو چستا ن کی ملکیت ہوں او ر وہا ں لو گو ں کو روزگا ر ہو ، ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بلو چستا ن نے خود کو کبھی بھی وفا ق سے الگ نہیں سمجھا ہم آج بھی وفا ق کے سا تھ چلنا چا ہتے ہیں ہم چا ہتے ہیں کہ وفا ق بھی مضبو ط ہو اورصوبہ بھی مضبو ط ہو، ایسے معاہدے کئے جائیں جو وفاق اور خاص طور پر اس صوبے کے مفاد میں ہوں وہ معاہدے کئے جائیں نہ کہ ذاتی مفادات کی بنیاد پر معاہدے ہوں،معاہدے قومی اور ملکی مفاد میں ہونے چاہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی بے گناہ شخص کے قتل کی مذمت کرتے ہیں ، کوئی بھی شخص ہو چاہے وہ بلوچ ہو، پٹھان ہو، پنجابی ہو ، سندھی ہو ، سرائیکی بولنے والا ہو یا ہزارہ ہو ، قرآن کہتا ہے کہ کسی ایک ناحق شخص کا خون بہانا ایسے ہی جیسے پوری انسانیت کا قتل۔ ہماری خواہش ہے کہ لوگ مسلح جدوجہد چھوڑ کر پارلیمنٹ میں آئیں اوراپنے لوگوں کی بات کریں۔