سرینگر (کے پی آئی ) مقبوضہ جموں وکشمیر میں سیاسی جماعتوں نے انتخابی حد بندی کمیشن کی حتمی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے مقبوضہ علاقے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اقتدار میں لانے کی کھلی کوشش قرار دیاہے۔
سابق حکمران جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے ایک بیان میں کہا کہ پارٹی نے پہلے دن سے ہی حد بندی کی مشق پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی کیونکہ یہ کشمیریوں کو بے اختیار کرنے کیلئے 5 اگست 2019 کو شروع ہونے والے عمل کی توسیع تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ حتمی مسودے نے ہمارے اندیشہ ایک بار پھر درست ثابت کر دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت نے انتخابی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے آزاد اداروں کا غلط استعمال کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ بھارت کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو گا کہ ووٹ ڈالنے سے بہت پہلے ہی انتخابات میں دھاندلی کی جا رہی ہے۔
پی ڈی پی کے ترجمان نے کہا کہ یہ تاریخ کا ایک اور افسوسناک باب ہے جو نئی دہلی میں بیٹھے حکمرانوں نے لکھا ہے۔نیشنل کانفرنس نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ہم نے حد بندی کمیشن کی سفارشات دیکھی ہیں اور ہم ان کے مضمرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ بی جے پی نے جموںوکشمیر کے ساتھ جو کیا ہے یہاں کا ووٹر اسے اسکی سزا دے گا۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسٹ ) نے ایک بیان میں کہا کہ حد بندی کمیشن نے پارلیمانی یا اسمبلی نشستوں میں اضافہ یا کمی پر آئینی پابندی کے باوجود اپنی حتمی رپورٹ پیش کر دی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ حد بندی کمیشن 2002 کے حد بندی ایکٹ کے تحت تشکیل دیا گیا تھا لیکن اس نے جموںوکشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کی شرائط کے مطابق جموںوکشمیر کے یونین ٹیریٹری(یو ٹی) کے حلقوں کو دوبارہ تیار کیا ہے جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ مشق جموں و کشمیر کے لوگوں کو بے اختیار کرنے کی سازش ہے۔
مقبوضہ علاقے کی ہائیکورٹ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی حد بندی کمیشن کی حتمی رپورٹ مسترد کر دی ہے۔ایسوسی ایشن کے ترجمان ایڈووکیٹ جی این شاہین ایڈوکیٹ نے کہا کہ جموں و کشمیر پر حد بندی کمیشن نے مقبوضہ علاقے کی سیاسی ، سماجی و اقتصادی تنظیموں کے تحفظات اور اعتراضات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ابتدائی رپورٹ کو برقرار رکھا۔
جی این شاہین نے مزید کہا کہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ جموں و کشمیر کی سیاسی تقسیم پر محرک ہے تاکہ کشمیر پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے اور اس کا مقصد دفعہ 370کی منسوخی کے فیصلے کی توثیق کرنا ہے، کانگریس کے صدر غلام احمد میر ،پیپلز کانفرنس اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے حدبندی کمیشن کی رپورٹ پر سخت ردعمل کااظہار کیا ہے۔
غلام احمد میر نے کہا کہ حد بندی کمیشن نے مقامی لوگوں کے جذبات کے خلاف کام کیا ہے اور ان کی تجاویز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔مسٹر میر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جموں کی لوک سبھا سیٹ میں اننت ناگ کو شامل کرنا بے میل اور سنگین کوتاہی قرار دیا اور کہا کہ اسمبلی سیٹوں کی حد بندی میں بھی اسی طرح کی کوتاہی ہوئی ہے۔
انہوں نے کمیشن کے اس اقدام کو عوام کے جذبات کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ اس سے ریاست کی ترقی متاثر ہوگی اور حد بندی سے سہولت ملنے کے بجائے مقامی لوگوں کو تکلیف ہوگی۔انہوں نے کہا کہ کمیشن نے حد بندی کے حوالے سے جموں و کشمیر کے 400 وفود سے ملاقات کی اور اس سلسلے میں ان سے تجاویز طلب کیں، لیکن اس سلسلے میں لوگوں کی طرف سے جو بھی تجاویز دی گئیں، انہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جب کمیشن نے لوگوں سے بات کی تو کم از کم ان کی ایک تجویز تو مان لی جاتی لیکن کسی بھی تجویز پر غور نہیں کیا گیا ہے۔مسٹر میر نے کہا کہ کمیشن نے نقشہ دیکھے بغیر حد بندی کا کام کیا ہے۔ اگر وہ سیٹلائٹ سے بھی جموں و کشمیر کا نقشہ دیکھتے اور اس کی بنیاد پر حد بندی کرتے تو لوگوں کو اس کا فائدہ ہوتا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کمیشن نے اس بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ جموں کی لوک سبھا سیٹ سے بہت دور واقع اننت ناگ کو ضم کر دیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مضحکہ خیز حد بندی ہوئی ہے۔ اس طرح کی بڑی گڑبڑ اسمبلی حلقوں کی تقریباً تمام سیٹوں پر ہوئی ہے۔ ایک طرح سے جو حلقہ دس کلومیٹر کے دائرے میں ہونا چاہیے اسے کئی سو کلومیٹر کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔
ادھر پیپلز کانفرنس نے بندی کمیشن کی رپورٹ کی رپورٹ پرشدید رعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے ساتھ ماضی کی طرح امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا امید ہے کہ کشمیری اب ان جماعتوں کو یاد رکھیں گے جنہوں نے خود کو حد بندی کے عمل سے منسلک کیا تھا جو کہ نااہلی کے لیے ایک لازمی ذریعہ تھا، ہمیشہ حیرت میں رہیں گے۔۔اس دوران نگریس کے سینئر لیڈرا ور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر حد بندی کمیشن کی تازہ رپورٹ میرے مطالعہ میں ہے ، تاہم میں اس وقت اپنے ابتدائی تاثرات کو بیان کر رہا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ جیسا کہ میں نے رپورٹ میں دیکھا کمیشن نے سب سے پہلے یہ غلطی کی ہے کہ اْس نے جموں وکشمیر میں 7 اسمبلی حلقوں کو بڑھانے کی سفارش کرتے ہوئے جموں کے لئے 6 نشستو ں کا اضافہ کیا ہے جبکہ کشمیر میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ کرنے کی سفارش کی ہے جو بالکل غلط اور نا انصافی ہے !مسٹر سوز کے مطابق سیاسی مبصرین نے پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ کمیشن مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر کوئی شرارت کرنے والا ہے اور کمیشن نے یہ شرارت سامنے لائی ہے۔انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کے عوام کی بھاری اکثریت پہلے سے ہی یہ اندازہ لگا رہی تھی کہ اس سلسلے میں مرکزی سرکار کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔
سوز نے کہا کہ میری تجویز یہ ہے کہ اب بھی یہ ممکن ہے کہ مرکزی سرکار اپنے سیاسی عمل میں جاگ جائے اور جموں وکشمیر کے پولیٹیکل مین اسٹریم کلاس کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات کا عمل شروع کرے۔اس سے قبل جموں و کشمیر حد بندی کمیشن نے جمعرات کو اپنی حتمی رپورٹ پر مہر ثبت کر کے اسے جاری کردیا۔ رپورٹ میں کشمیری تارکین وطن اور پاکستانی رفیوجیوںکے لیے اضافی نشستوں کی سفارش کی ہے۔حد بندی کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کی ریٹائرڈ جج جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی نے جموں و کشمیر کے حد بندی اْرڈر کو حتمی شکل دینے کے لیے میٹنگ کی۔ اس کے لیے گزٹ نوٹیفکیشن بھی شائع کر دیا گیا ہے اور یہ حکم بھارتی حکومت کے اعلان کردہ تاریخ سے نافذ العمل ہوگا۔
حتمی حد بندی آرڈر کے مطابق، مرکز کے زیر انتظام علاقے کے 90 اسمبلی حلقوں میں سے 43 جموں اور 47 کشمیر کے علاقے کا حصہ ہوں گے۔پہلی بار درج فہرست قبائل کے لیے نو نشستیں محفوظ کی گئی ہیں۔ چھ جموں خطہ میں اور تین وادی کشمیر میں۔ درج فہرست ذاتوں کے لیے 7 نشستیں محفوظ کی گئی ہیں۔ حدبندی ایکٹ2002اورجموں وکشمیر تنظیم نوایکٹ2019کی مختلف شقوںکاحوالہ دیتے ہوئے 17صفحات پرمشتمل ڈرافٹ رپورٹ کوحتمی شکل دی گئی ہے اوراس سلسلے میں جمعرات کوباضابطہ پورپر ایک نوٹیفکیشن اورآرڈر جاری کردیاگیا ہے۔
جوائنٹ چیف الیکٹورل افیسر جموں وکشمیر انیل سلگوترہ کی جانب سے اجراء کردہ جموں وکشمیر حدبندی حتمی مسودہ رپورٹ پرکمیشن کی چیئرپرسن رنجنا پرکاش ڈیسائی ،چیف الیکشن کمیشنر آف انڈیا سوشیل چندرا اوراسٹیٹ الیکشن کمیشنر کیول کمار شرما کے دستخط موجود ہیں جبکہ کمیشن کے دیگرممبران میں ڈپٹی الیکشن کمیشنرچندربھوشن کمار اورچیف الیکٹورل افسرہردیش کماربھی شامل ہیں۔5 رْکنی حدبندی کمیشن جس کاقیام6نومبر2020میں عمل میں لایاگیاتھا،میں جموں وکشمیر کے پانچ ارکان لوک سبھا کوبطورایسوسی ایٹ ممبران کے شامل کیاگیا،اورمختلف میٹنگوں میں ان ارکان پارلیمان سے تجاویز اوراعتراضات بھی طلب کئے گئے ،تاہم متعلقہ ایسوسی ایٹ ممبران خاص طورپر کشمیرکے نیشنل کانفرنس سے وابستہ تین ارکان ڈاکٹر فاروق ،حسنین مسعودی اورمحمداکبر لون کی جانب سے پیش کردہ تقریباًکسی بھی اعتراض یاتجویز کوکمیشن نے خاطر میں نہیں لایا۔
اب یہ رپورٹ بھارتی وزارت قانون کوپیش کی جائیگی ،جو قانونی اوردیگر متعلقہ معاملات کاجائزہ لینے کے بعد اس پراپنی مہر ثبت کرے گی۔کمیشن ھٰذا نے ایسوسی ایٹ ممبران کیساتھ نئی دہلی میں دومرتبہ میٹنگیں کیں جبکہ 4 اور5 اپریل2022کوبالترتیب جموں اورسری نگرمیںمختلف سیاسی وغیرسیاسی وفود کیساتھ ملاقاتیں کیں۔تقریباً200وفود نے کمیشن کواپنی تجاویز اوراعتراضات سے روشنا س کرایا۔جموں وکشمیر سے متعلق حدبندی کمیشن نے اپنی عبوری رپورٹ میں جموں وکشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد83سے بڑھاکر90کرنے کی تجویز دی ،اس طرح 7اسمبلی حلقوں کااضافہ کیاگیا ،جن میں سے 6نئے اسمبلی حلقے صوبہ جموں میں معرض وجودمیں لانے کی سفارش کی گئی اورکشمیروادی میں ضلع کپوارہ کے ترہگام علاقہ کونیا اسمبلی حلقہ بنایاگیا۔
کمیشن کی تجویز کردہ سات نئے اسمبلی حلقوں کے بعدکشمیروادی میں اسمبلی حلقوںکی تعداد46سے بڑھ47اور صوبہ جموں میں37سے بڑھ کر43ہوجائیگی۔کشمیروادی میں تین اسمبلی حلقوں گریز ،کنگن اورکوکرناگ کودرجہ فہرست قبائل کیلئے مخصوص رکھاگیاہے جبکہ صوبہ جموںمیں گلاب گڑھ،رجوری ،بدھل ،تھنہ منڈی ،سرنکوٹ اورمینڈھر کی اسمبلی نشستوں کودرجہ فہرست قبائل کیلئے مخصوص رکھے جانے کے علاوہ اکھنور،مڑھ جموں،سچیت گڑھ ،بشناہ،رام گڑھ ،کٹھوعہ ،اوررام نگر اسمبلی حلقوںکودرجہ فہرست ذاتوں کیلئے مخصوص رکھنے کی تجویزدی گئی ہے۔یوںکل16اسمبلی حلقے درجہ فہرست ذاتوں وقبائل کیلئے مخصوص ہونگے۔
حدبندی کمیشن نے اپنے حتمی مسودہ رپورٹ میں لالچوک سمیت کئی نئے اسمبلی حلقوں کا نام تبدیل کیا ہے۔حد بندی کمیشن کے پریس بیان کے مطابق، کچھ اسمبلی حلقوں کے نام مقامی نمائندوں کے مطالبے کے مطابق تبدیل کیے گئے ہیں جیسے ٹنگمرگ کوبطور گلمرگ، زونی مرکوبطورزڈی بل سرینگروغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ لالچوک کا حلقہ اب سونہ وار کاحلقہ انتخاب کہلائے گا۔
۔حدبندی کمیشن نے جموں وکشمیر کے پانچ پارلیمانی یعنی لوک سبھا حلقوںکی سرنو حدبندی بھی کی ہے اورساتھ ہی کشمیروادی اورجموں صوبے کواڑھائی اڑھائی پارلیمانی سیٹیں دی گئی ہیں ،کیونکہ اننت ناگ پارلیمانی حلقے کونصف درجن علاقوں کوسرینگرپارلیمانی نشست کیساتھ جوڑ کر راجوری اورپونچھ اضلاع کے کئی اسمبلی حلقوںکواننت ناگ پارلیمانی سیٹ کیساتھ ملایاگیاہے۔حد بندی کمیشن نے کہا کہ کشمیری تارکین وطن کے وفود نے کمیشن کے سامنے یاداشت پیش کی کہ انہیں گزشتہ تین دہائیوں سے اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے ستایا گیا اور جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔
اس کے نتیجے میں، حد بندی کمیشن نے اسمبلی میں کشمیری تارکین وطن کی کمیونٹی سے ایک خاتون سمیت کم از کم 2 نشستوں کی سفارش کی ہے، جن کے پاس پڈوچیری اسمبلی کے نامزد اراکین کے برابر اختیارات ہونگے۔بیان کے مطابق حد بندی کمیشن نے سفارش کی کہ مرکز 1947کے پاکستانی رفیوجیوں کیلئے بھی جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی دینے پر غور کر سکتا ہے ۔۔