نواز دور میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیلئے عسکری قیادت یکسونہ تھی، عرفان صدیقی


اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر اور 2014 میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ نواز دور میں  ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لئے عسکری قیادت یکسونہ تھی،مذاکرات کی ناکامی کے بعد آپریشن ضرب عضب حکومت یا وزیراعظم نواز شریف کو بتائے بغیر شروع کر دیا گیا تھا ۔

انہوں نے  اردو نیوز کو انٹرویو میں کہا کہ  اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا، میرا مشاہدہ بتاتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے عسکری قیادت یکسو نہیں تھی۔انہو ںنے کہا کہ نواز شریف 2013 کے انتخابات سے قبل ہی امن وامان اور توانائی کے بحران کے خاتمے کا ذہن بنا چکے تھے۔

انتخابات جیتنے کے بعد حلف اٹھانے سے پہلے انہوں نے اسلام آباد ایئرپورٹ کے راول لائونج میں افغانستان میں پاکستان کے سفیر محمد صادق اور دیگر افراد کو بلایا اور اس معاملے پر تفصیلی اجلاس کیا اور اپنی سوچ کے بارے میں آگاہ کیا۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ (طالبان سے مذاکرات)اول و آخر نواز شریف کا اپنا ذہن تھا، اپنا فیصلہ تھا اور اپنا منصوبہ تھا۔ حکومت بننے کے بعد وہ بڑا کام کرتے رہے کہ کس طرح اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ستمبر میں غالباً نو ستمبر کو ایک اے پی سی انہوں نے بلائی جس میں تمام جماعتیں تھیں، عسکری قیادت تھی، کیانی صاحب تھے۔اس وقت آرمی چیف اور عسکری قیادت نے بھی بریفنگ دی۔

عمران خان سمیت تمام پارٹیوں کے سربراہ شریک تھے۔ وہاں اتفاق رائے ہوا کہ ہم نے مار دھاڑ نہیں کرنی، آپریشن نہیں کرنا۔ ہم نے امن کے ذریعے خاص طور پر عمران خان کا بڑا زور دار موقف تھا کہ امن اور بات چیت کے ذریعے معاملہ آگے بڑھانا ہے۔انہوں نے عمران خان کے حوالے سے بتایا کہ اس وقت جب عمران خان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا، ہم نے عمران خان سے حکومتی کمیٹی میں اپنا نمائندہ دینے کا کہا تو انہوں نے رستم شاہ مہمند کو حکومتی کمیٹی میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔

مذاکرات کے دوران بھی ایک دن نواز شریف مجھے اور چوہدری نثار علی خان کو ساتھ لے کر کسی پروٹوکول کے بغیر بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچے، جہاں مجھے کہا گیا کہ میں عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت کو پیش رفت سے آگاہ کروں اور میں نے انھیں بریف کیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مذاکرات کے معاملے میں عسکری قیادت یکسو نہیں تھی بلکہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے جو تقریر کی اتفاق رائے پیدا کیا اور مذاکراتی کمیٹیاں بنائیں، اس سے چند دن پہلے شایدعسکری قیادت یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ آپریشن کرنا ہے۔

اب یہ بھی توقع تھی کہ میاں صاحب شاید اس آپریشن کا اعلان کرنے والے ہیں جبکہ میاں نواز شریف کا اعلان اس کے برعکس تھا۔ تو میرا جو گمان، اندازہ اور تجربہ ہے اور جو سارے عمل کے دوران میں نے محسوس کیا ظاہر ہے اب وہ تاریخ کا حصہ ہے اور میرا خیال ہے کہ اسے اب چھپانا نہیں چاہئے۔ ہمیں عسکری قیادت کی جانب سے کوئی معاونت نہیں ملی کوئی مشاورت نہیں ملی۔ ہم سے ان کا رابطہ نہیں رہا۔عسکری قیادت مذاکراتی عمل کے حوالے سے کوئی زیادہ خوشگوار یا ہمدردانہ یا موافقت والا تاثر نہیں رکھتی تھی۔طالبان کی جانب سے مذاکرات میں سنجیدگی، امن کی خواہش اور مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر نے کہا کہ طالبان میں سنجیدگی نظر نہیں آئی کیونکہ جہاں سنجیدگی ہوتی ہے وہاں شرطیں نہیں لگائی جاتیں۔ دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کی جاتی ہے تاکہ بات آگے بڑھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے اور امید تھی کہ حل نکل آئے گا لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔’اس کی وجہ یہ ہے کہ ان طالبان کی کمانڈ کے اندر یکسوئی نہیں تھی۔ وہ شوریٰ تھی جس سے ہم بات کر رہے تھے وہ شوریٰ تو چلو بات کرتی تھی۔ وہ خود ہمیں کہتے تھے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہماری کمانڈ سے باہر ہیں۔ وہ ایک واردات کر دیتے ہیں وہ ہمارے ذمے لگ جاتی ہے۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم کہتے تھے کہ پھر آپ اس سے لاتعلقی کا اظہار کریں، مذمت کریں وہ یہ بھی نہیں کرتے تھے۔ اس طرح سے مذاکرات ہچکولے کھاتے رہتے تھے اور بات آگے بڑھ نہیں پاتی تھی۔’اس میں پھر ایک مرحلہ ایسا آ گیا کہ خالد خراسانی نے 23 کے قریب ایف سی کے اہلکار جو انہوں نے کئی سال پہلے اغوا کیے ہوئے تھے عین ان دنوں جب ہم مذاکرات کر رہے تھے وہ شہید کر دیئے یعنی یہ جان بوجھ کر کوشش کی گئی کہ یہ بات آگے نہ بڑھے۔

ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے تسلیم کیا کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد آپریشن ضرب عضب حکومت یا وزیراعظم نواز شریف کو بتائے بغیر شروع کر دیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اچانک خبر ملی کہ ضرب عضب شروع ہو گیا ہے۔ میاںنواز شریف نے ایک چھوٹی سی میٹنگ بلائی۔ میں بھی اس کا حصہ تھا، چوہدری نثار علی خان بھی تھے۔

اس میں انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے مذاکرات ناکام ہو چکے تھے ہم بھی محسوس کرتے تھے کہ شاید آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے لیکن ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا، بتانا چاہیے تھاپھر انہوں نے چوہدری نثار علی خان سے کہا کہ آپ اسمبلی میں جائیں اور ظاہر ہے اب ہمارے سامنے سوائے اس آپریشن کی حمایت کے اور کوئی راستہ نہیں، ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں بتائے بغیر آپریشن شروع ہوا ہے، یہ ریاست کا معاملہ ہے۔ چوہدری نثار نے اس سے گریز کیا اور کہنے لگے کہ یہ لیول ایسا ہے کہ آپ کو خود بات کرنی چاہئے۔

عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ اس کے بعد نواز شریف اسمبلی گئے اور مذاکرات کا پس منظر بیان کرنے کے بعد انہوں نے آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ مذاکراتی ماحول اور اس ماحول میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نے تمام سٹیک ہولڈرز کو بھی اور پارلیمنٹ کو بھی پوری طرح اعتماد میں لے کر قدم اٹھایا۔اپنے طور پر خفیہ کاری نہیں کی۔ بند دروازوں کے پیچھے کوئی بات نہیں کی۔ آج کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے سینیٹ میں اٹھ کر سوال کیا، قومی اسمبلی کو پتہ نہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری ارکان کو پتہ نہیں ہے کہ کون کس سے کیا مذاکرات کر رہا ہے؟ کن شرائط پر کر رہا ہے؟ اور آنے والے دنوں میں کیا ہونا ہے؟ جس کی وجہ سے ایک انتشار کی کیفیت ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس وقت تو ہمارے ساتھ ایک یہ بھی مسئلہ تھا کہ جو افغانستان کی حکومت تھی اس کا رویہ پاکستان مخالف تھا۔ لہذا ہمیں وہاں سے حکومتی سطح پر کوئی مدد ملنے کی توقع نہیں تھی۔ افغان طالبان برسر جنگ تھے تو شاید ان کو بھی ضرورت ہو کہ یہ ٹی ٹی پی متحرک رہے تاکہ ہماری جو تقویت ہے اس میں کمی نہ آئے۔ لہذا وہ ماحول نہیں تھا جو آج ہے آج نسبتاً سازگار ماحول ہے۔

انہوںنے کہا کہ موجودہ حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں طالبان نے اب بھی کم و بیش وہی شرطیں رکھی ہیں جو اس وقت رکھی تھیں۔ جن کو پورا کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کسی طرح سے ان میں پیش رفت ہو بھی جائے تو طالبان کے اتنے دھڑے ہیں کہ جن پر شوریٰ کی کمانڈ نہیں اس لیے دہشت گردانہ کارروائیاں نہیں رک سکتیں۔دوسرا طالبان کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کر کے انہیں ایک بڑی جنگی طاقت کا درجہ دے دیا گیا۔

اگر حملے افغانستان کی سرحد سے ہوں گے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ یہ تمام وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر مذاکرات کی کامیابی کا امکان کم ہی نظر آتا ہے تاہم کامیابی کی دعا کی جا سکتی ہے۔