قومی زبان کے نفاذ کا معاملہ بہت ہی حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔یہ افسوسناک بھی ہے کہ کسی قوم کے چند باشعور افراد کو قومی زبان کے نفاذ تحاریک چلانی پڑیں
اول تو قومی زبان کے نفاذ میں رکاوٹیں ڈالنے کا معاملہ بذاتِ خود معنی خیز ہے۔بہتر سالوں میں کی حکومتیں آئیں مگر بدنیتی کی وجہ سے قومی نفاذ کامعاملہ جوں کا توں رہا۔
جان بوجھ کر اس حقیقت سے آنکھیں چرانے کا مطلب بدنیتی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ساری باتیں ایک طرف مگر یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں اور ہمارا ورثہ اردو میں ہی منتقل ہوگا۔اگر اردو نافذ نہ ہوی تو ورثہ سنبھالنے والا کوئی نہ ہوگا۔
دنیا میں کوی قوم ایسی نہیں ملے گی جسے اپنے ورثے اور زبان کی قدر و قیمت کا اندازہ نہ ہو اور اس کی حفاظت کا کام ان قوموں اور ان کی حکومتوں کا فرض اولین ہوتا ہے۔اسی لیے وہ دنیا میں فخر حاضل کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تغافل عارفانہ عروج پر ہے یہاں تک کہ نہ قوم کو شعور ہے نہ حکومتوں کو بلکہ حکومتیں تو جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرتی ہیں ۔
یہ بات تو طے ہے کہ قومی زبان سے غفلت پاکستان سے غفلت ہے اور قومی زبان کا مخالف پاکستان کا مخالف ہے۔
اسی غفلت کے نتیجے میں تعلیم شجر ممنوعہ بنتی جا رہی ہیں پھر یہ سننے کو ملتا ہے کہ بچے پڑھتے نہیں ارے جب اکثریت کو بات سمجھ ہی نہیں آے گی تو تعلیم کا حصول کیسے ممکن ہے۔قومی زبان کے بارے میں یہ ہی دلیل کافی ہے کہ قائد اعظم نے اسے قومی زبان قرار دیا تھا اس اس کے رسم الخط کی حفاظت کو لازم کیا تھا دوسرے یہ کہ عدالت بھی دوہزار پندرہ میں اس کا حکم دے چکی ہے اس لیے مخالفت کی کوئی دلیل نہیں قوم کو سنبھالنا حکومتوں کا کام ہے اور انہیں منتخب بھی اسی لیے کیا جاتا ہے ۔