اسلام آباد(صباح نیوز)اقوام متحدہ مشن کے تحت سوڈان میں خدمات انجام دینے والی پاکستانی خاتون پولیس کمشنر ہیلینا اقبال سعید نے کہا ہے کہ کبھی اپنے فرائض سے پہلو تہی کی اور نہ ہی اپنے گھر کی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی، سنہ 2004-05 میں اسلام آباد میں ٹریفک کا ماڈل نظام متعارف کروایا، جس میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اپنے شوہر اور اپنے افسران کے خلاف بھی جرمانے کر دیے تھے، پولیس ایسا شعبہ ہے کہ اگر آپ کسی کی مدد کرنا چاہیں یا انسانیت کی خدمت کرنا چاہیں تو خود براہ راست کر سکتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ خواتین سب کچھ کر سکتی ہیں اور ان کو کرنا بھی چاہیے مگر اس کے لیے خواتین کو دماغی طور پر مضبوط اور انتھک محنت کرنا ہو گا۔ مجھے آرام اور سکون کی عادت ہی نہیں رہی، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نہ کسی صورت میں خدمت کا سلسلہ جاری رکھوں گی
برطانوی نشریاتی ادارے کو دئیے گئے انٹرویو میں پاکستان کی پہلی سی ایس ایس خاتون پولیس افسر ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں بندہ کچھ زیادہ کرنے کا نہیں سوچتا مگر انھوں نے اقوام متحدہ کے مشن میں شمولیت کچھ نیا سیکھنے کے لیے اختیار کی۔وہ کہتی ہیں کہ مجھے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے سے سکون ملتا ہے، میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتی۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس کمشنر کے لیے درخواستیں عالمی طور پر طلب کی گئیں تھیں، جس کے لیے انھیں اہلیت جانچنے کے ایک انٹرویو کے بعد منتخب کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ سوڈان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے، حالات نارمل نہیں اور وہاں کام کرنا کافی دشوار ہے۔ہم وہاں پر سوڈان کی پولیس کو تربیت دے رہے ہیں کہ وہ کیسے سوڈان کے شہریوں کو تحفظ فراہم کر سکیں۔ اس کے لیے میرے ساتھ مختلف ممالک اور قوموں کے لوگ کام کر رہے ہیں۔ہیلینا اقبال سعید کا کہنا تھا کہ پاکستان کے علاوہ باقی ممالک سے بھی اقوام متحدہ کے فوجی اور پولیس آپریشنز میں کئی خواتین حصہ لے رہی ہیں، جس میں میڈیکل کور میں بھی پاکستان کی خواتین شامل ہیں۔اس وقت چھ پولیس کمشنر ہیں جو خواتین ہیں۔ ان میں، میں واحد پاکستانی خاتون پولیس کمشنر ہوں۔ دنیا بھر سے باصلاحیت خواتین کو اقوام متحدہ کے آپریشنز میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دیں۔
ہیلینا اقبال سعید کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ سے ان کی خواہش تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے کسی مشن میں کام کریں۔مگر اس کے لیے مجھے وقت نہیں مل رہا تھا۔ جب اس مشن کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں تو میں نے بھی فیصلہ کیا کہ میں ضرور اپلائی کروں گی۔ہیلینا اقبال کہتی ہیں کہ انھوں نے زندگی میں جو بھی کرنے کی ٹھانی وہ کر کے دکھایا تاہم سی ایس ایس کرنے کا فیصلہ ان کا نہیں بلکہ ان کے والد کا تھا۔مجھے زمانہ طالب علمی میں سی ایس ایس کرنے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا۔ میرے فیصلے میرے والد نے لیے تھے۔ یہاں تک کہ سی ایس ایس میں گروپ بھی انھوں نے چنا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ مجھے سرکاری ملازمت میں جانا ہے۔ہمارے دور میں والدین سے سوال نہیں کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جو کہا میں نے بھی کر لیا۔ تیاری میں نے خود ہی کی تھی۔ کئی جگہوں پر ٹکریں ماری تھیں۔ کافی پڑھا اور محنت کی، جس کے بعد میں منتخب ہوئی تو والد ہی کے منتخب کردہ گروپ میں تربیت بھی حاصل کر لی۔
ہیلینا اقبال سعید کا کہنا تھا کہ فارن سروس کی تربیت مکمل کرنے کے بعد انھیں خیال آیا کہ وہ پولیس کے شعبے میں زیادہ بہتر ثابت ہو سکتی ہیں۔پولیس سروس کی تربیت کے دوراں میں واحد خاتون تھی جبکہ میرے ساتھ باقی سارے زیر تربیت افسران مرد تھے۔ہیلینا اقبال سعید نے بتایا کہ انھیں نہیں پتا تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون پولیس افسر بن جائیں گی۔ریکارڈ بنانے کا کوئی شوق بھی نہیں تھا۔ پولیس کی تربیت نہ تو میرے لیے مشکل تھی اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی خوف تھا مگر مجھے مائنڈ سیٹ اور روایتی رویوں سے مقابلہ کرنا تھا۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ خاتون وردی پہن کر کہاں جائے گی اور کیا کرے گی۔ پہلے لوگوں نے کہا کہ آپ وردی کون سی پہنو گئی۔ ساڑھی پہنو گی یا کیا۔ میں نے کہا کہ میں ساڑھی کیوں پہنوں؟ میں نے تو فرائض ادا کرنے ہیں اور ساڑھی پہن کر کیسے کر سکتی ہوں۔ میں وہی پہنوں گی جو مرد پہن کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بھی اور شاید اب بھی لوگ خواتین کو پوزیشن اور اتھارٹی میں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس سروس کی تربیت مکمل ہونے کے بعد زیر تربیت اے ایس پی کی حیثیت سے ان کی پہلی پوسٹنگ جہلم میں ہوئی۔بہت اچھا تجربہ تھا مگر لوگ گھورتے ہی رہتے تھے۔ اسلام آباد میں بھی ہوا کہ جب میں وردی میں آ جا رہی ہوتی تو لوگ مجھے دیکھ کر سیڑھیاں چلتے ہوئے حیرت سے گر جاتے اور کوئی دیوار سے جا ٹکراتا کہ یہ خاتون پولیس کی وردی میں کدھر سے آ گئیں؟
ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ اس دوران ایسا بھی ہوا کہ کسی ملزم سے اگر تفتیش کرنا ہوتی تو ایس ایچ او کہتے کہ میں دوسرے کمرے میں چلی جاوں۔میں ان سے کہتی کہ نہیں میں نے نہیں جانا، جو بھی ہو گا میرے سامنے ہو گا۔ اس طرح تفتیش اور انکوائری کے لیے دور دراز علاقوں کا سفر کرتی۔ اکثر پیدل اور گھوڑے پر سفر کرتے تھے۔ اس دوران بھی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ جہلم میں پوسٹنگ کے دوران انھیں ٹریفک کا چارج دیا گیا تھا۔میں جہلم چوک میں کھڑے ہو کر کئی غیر قانونی گاڑیوں کو بند کر دیا کرتی تھی۔ صورتحال یہ ہو گئی تھی کہ جب لوگوں کو پتا چلتا کہ میں جہلم چوک پر کھڑی ہوں تو ٹریفک کھاریاں سے واپس ہو جاتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بحثیت اے ایس پی ان کی پہلی پوسٹنگ راولپنڈی میں ہوئی اور ان کے بارے میں مشہور ہو گیا کہ یہ انتہائی سخت گیر پولیس افسر ہیں۔اگر کسی کو غلط کام کرتے ہوئے پکڑ لیتی تو معافی کم ہی دیتی تھی۔ راولپنڈی میں میرے زیر کمان اہم تھانوں کے علاوہ اہم علاقے بھی شامل تھے۔ہیلینا اقبال سعید بتاتی ہیں کہ انھوں نے کئی اہم کیسز میں بہت بہتر نتائج دیے تھے۔اس زمانے میں ایک سیریل کلر کو پکڑا تھا۔ اس سے تفتیش کا مرحلہ آیا تو مجھ سے کہا گیا کہ میں اس سے تفتیش کروں۔ اب میں پانچ فٹ چار ہوں اور وہ لمبا تگڑا عادی مجرم مگر جب نیت ٹھیک ہو تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کی نہ صرف تفتیش کی بلکہ آلہ قتل بھی بر آمد کروایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ایک اور ہائی پروفائل کیس جو ایک خاتون کا تھا اس کو بے نقاب کیا اور ملزم کو سزا دلائی تھی۔ہیلینا اقبال سعید نے سنہ 2004-05 میں اسلام آباد میں ٹریفک کا ماڈل نظام متعارف کروایا، جس میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اپنے شوہر اور اپنے افسران کے خلاف بھی جرمانے کر دیے تھے۔
ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صاحب کی بہت بڑی رقم بر آمد کروائی۔ ان کو اپنے دفتر بلوایا اور لفافے میں رکھ کر رقم ان کو دے دی۔ وہ میرے سامنے بیٹھے مجھے دیکھے جارہے تھے کہ میں ان پیسوں سے کچھ مانگوں گی لیکن جب کافی دیر گزر گئی تو میں نے کہا کہ آپ جاتے کیوں نہیں۔ہیلینا اقبال کہتی ہیں کہ وہ صاحب خاموشی سے اٹھے اور چلے گئے اور ان کے چہرے کے تاثرات انھیں آج بھی یاد ہیں۔
ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ اکثر اوقات ان کے سنیئیر اس صورتحال میں نہیں ڈالتے تھے جہاں پر جان کا خطرہ ہو مگر فرائض کے دوران کئی مرتبہ دھکے بھی کھائے ہیں۔ایک بار تو اسلام آباد میں ایک احتجاج کے دوران ایک صاحب بار بار مجھے دھکے مارہے تھے۔ اس دوران میری بیٹی کی پیدائش متوقع تھی۔دو تین مرتبہ تو برداشت کیا پھر ان صاحب سے کہا کہ اب اگر مجھے دھکا لگا تو آپ کی خیر نہیں، جس کے بعد انھوں نے احتیاط برتنا شروع کر دی۔
ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ اصول پسندی کی وجہ سے سفارش ماننے سے انکار پر ان پر دباو بھی آیا۔میرے ساتھ بھی ہوا، مجھے بھی سائیڈ لائن کیا گیا، لیکن جو بھی ہوا نہ کبھی اپنے فرائض سے پہلو تہی کی اور نہ ہی اپنے گھر کی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی۔ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ اس عمر تک جب تک ان کے دونوں بچوں کو ان کی ضرورت تھی، انھوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھا۔پولیس میں کام کا دورانیہ نہیں ہوتا بلکہ چوبیس گھنٹے کا کام ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک گھر کا انتظام کرنا بھی چوبیس گھنٹے کا کام ہے۔ میں پولیس میں فرائض بھی پوری طرح انجام دیتی رہی ہوں اور اپنے بچوں کی خود پرورش کرنے کے علاوہ اپنے گھر کا بھی خود خیال رکھا۔ میں وہ کام بھی کرتی ہوں جو ایک گھریلو خاتون کرتی ہے۔ اسلام آباد میں تعیناتی کے دوران پیٹرولنگ کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھتی تھی۔
ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ بچوں کے لیے اپنے دفتر کے ساتھ ایک چھوٹا سا ریسٹ ہاوس بنا لیا تھا۔ان کو صبح ساتھ لے کر دفتر چلی جاتی تھی۔ وہاں پر ان کے لیے ٹیلی وژن، فریج، پڑھائی اور کھیل کود کی اشیا موجود ہوتی تھی۔ میں کام کے دوران باہر آتے جاتے ان کو دیکھ لیتی تھی۔ بہت کم کبھی کسی کو پتا چلا کہ میرے ساتھ دفتر میں بچے بھی موجود ہیں۔ہیلینا اقبال سعید کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ معاشرے کو کچھ مثبت لوٹانا چاہتی تھی اور انھوں نے فارن سروس سے پولیس سروس میں منتقل ہونے کا فیصلہ بھی اسی وجہ سے کیا۔مجھے لگتا ہے اور پھر تجربے نے بھی ثابت کیا کہ پولیس ایسا شعبہ ہے کہ اگر آپ کسی کی مدد کرنا چاہیں یا انسانیت کی خدمت کرنا چاہیں تو خود براہ راست کر سکتے ہیں۔
ہیلینا اقبال سعید کہتی ہیں کہ فارن سروس سے جب وہ پولیس سروس میں جا رہی تھیں تو اس وقت انھیں کہا گیا کہ پولیس کیوں؟تو میں نے کہا کہ خواتین پولیس سٹیشن ہیں تو خاتون پولیس افسر کیوں نہیں؟ میں سمجھتی ہوں کہ خواتین سب کچھ کر سکتی ہیں اور ان کو کرنا بھی چاہیے مگر اس کے لیے خواتین کو دماغی طور پر مضبوط اور انتھک محنت کرنا ہو گا۔ہیلینا اقبال سعید نے یہ بھی کہا کہ ان کے ریٹائرمنٹ کے دن قریب ہیں لیکن وہ اس کے بعد بھی فارع نہیں بیٹھیں گی۔ایک نہ ایک دن تو ریٹائر ہونا ہے مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے زیادہ آرام اور نیند کی عادت نہیں۔ اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نہ کسی صورت میں خدمت کا سلسلہ جاری رکھوں گی۔
ہیلینا اقبال سعید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ مشن کے لیے پاکستان سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون پولیس افسر ہیں جو اس وقت سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں اقوام متحدہ کی اس پولیس ٹیم کی سربراہی کر رہی ہیں جو سوڈان کی پولیس کو تربیت فراہم کر رہی ہے۔ہیلینا اقبال سعید کی کمانڈ میں مختلف ممالک کے پولیس افسران خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہیلینا اقبال سعید پاکستان سے اقوام متحدہ کے مشن کے لیے منتخب ہونے والی پہلی خاتون کمشنر ہی نہیں بلکہ وہ پاکستان کی پہلی سی ایس ایس خاتون پولیس افسر ہیں۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی گریڈ 21 کی پہلی اسسٹنٹ آئی جی پولیس افسر ہیں۔ہیلینا اقبال سعید کے والد قاضی اقبال سعید اور ان کے نانا خان بہادر شاہ زمان وفاقی سیکرٹری رہ چکے ہیں۔
ہیلینا اقبال نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے 19ویں کامن پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انھوں نے آغاز میں تربیت فارن آفس میں خدمات حاصل کرنے کے لیے لی تھی مگر بعد میں انھوں نے پولیس سروس میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے پولیس کی تربیت بھی حاصل کی۔