آئیےملتے ہیں ان سے جو پاکستان کا قرض اتار رہے ہیں۔۔۔۔تحریر،افشاں نوید


دو روز قبل21 مارچ کی صبح ہم شیخوپورہ کے پرتکلف سجے ہوئے پنڈال میں ان بچوں کے درمیان تھے جن سے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے۔
ماں باپ کی “آغوش” کا متبادل کچھ نہیں ہو سکتا۔مگر ان کی پیشانی پر لکھے دکھ کچھ کم کیے جا سکتے ہیں۔یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دکھ سنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے۔۔۔
کانٹے تو زبانیں ہوتی ہیں اور رویے۔

جن کے دلوں میں خوف خدا ہے وہ خاندان کے یتیم بچوں کو سینے سے لگاتے ہیں مگر۔۔۔
ہمارے سماج میں ایسے بھی سفید خون ہیں جو باپ کے مرتے ہی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔
ماں سمیت بچے دربدر ہو جاتے ہیں۔۔وہ مانگ کر کھائیں اور خالی پلاٹوں پر جھگیاں بنا کر زندگی کا عذاب جھیلیں۔
ماں بچوں کو چھوڑ کر دن بھر مزدوری کرے اور بچیوں کی عزت کو خطرات لاحق ہوں۔
شفقت پدری اور سائبان سے محروم یہ بچے ذہنی مریض اور مجرم نہ بنیں گے تو کیا بنیں گے؟
یہ تو اسلام ہے جو یتیم کو یتیمی کے دکھ سے نکالتا ہے۔

باپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی “ریاست” پر کفالت کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “جس کا کوئی والی وارث نہیں میں اس کا وارث ہوں۔”صرف کہا ہی نہیں، تمام عمر اپنے عمل سے ثابت کیا۔
کتنی بشارتیں دی یتیم کا حق ادا کرنے والے کے لیے۔ہم جو زندگی بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی جالیاں پکڑنے کی آرزو لیے جیتے ہیں۔اس سے بڑی خوشخبری کیا ہے کہ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کے ساتھ والی انگلی کو جوڑ کر بتایا کہ یتیم کی پرورش کرنے والا روز حشر میرے ساتھ اس طرح ہوگا۔”متفق علیہ

جس طرح مرگی کے مریض کا آخری امتحان اس کی ناک کے سامنے آئینہ رکھ کر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح یتیم کسی سماج کا آئینہ ہیں۔کسی معاشرے کی اخلاقی حالت دیکھنا ہو تو دیکھیں کہ وہاں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟شیخوپورہ کا یہ عظیم الشان آغوش سماج کی زندگی کی تابندہ علامت ہے۔یہ مرکز نہ ایک دن میں تعمیر ہوا نہ کسی ایک فرد کے بس کی بات ہے۔مہینوں منصوبے بنائے جاتے ہیں۔فنڈنگ کے لیے گھروں اور دلوں پر دستکیں دی جاتی ہیں۔
سینکڑوں لوگ دامے درمے سخنے دست و بازو بنتے ہیں۔ جب کہیں جا کر سالوں میں خوابوں کو تعبیر ملتی ہے۔
اسٹیج پر نصف درجن افراد کھڑے تھے سر جھکائے۔۔

جن کو شہرت کی خواہش تھی نہ پیسے کی طلب ۔کوئی آرکیٹیکٹ تھا جس نے کئی ایکڑ پر مشتمل صوبہ رضاکارانہ ڈیزائن کیا۔
بزرگوار افضل صاحب نے سترہ ایکڑ زمین مفت فراہم کی اس پروجیکٹ کے لیے۔یہ اسلامی معاشرے کی ایک جھلک ہے جہاں لوگ اپنے بنگلے اور کار سے آگے بھی سوچتے ہیں۔اپنے اہل خانہ کی معاش سے آگے بھی بھوکے بچوں کی فکرکرتے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر شکور صاحب کہہ رہے تھے یہ عظیم الشان عمارتیں ان یتیم بچوں کے حوالے کر کے انھیں ہوا میں اچھال کر ہمارے بازو انھیں تھامنے کو بھی موجود ہونگے۔

یہاں صرف روٹی اور علاج ہی نہیں انکی تعلیم و تربیت کسی کیڈٹ کالج والے پروقار انداز میں کی جائے گی۔لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے وسیع کشادہ اسکول،ہاسٹلز،کھیل کی انتہائی معیاری سہولتیں،مزین لائبریری،تربیت یافتہ عملہ۔کروڑوں روپے سے سترہ ایکڑ پر تعمیر اس عمارت کا وزٹ کرتے ہوئے ہم سب یہی سوچ رہے تھے کہ اسلام زندہ ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات زندہ ہیں۔ان بے سہارا بچوں کے لیے لوگ کتنی قربانیاں دے رہے ہیں کہ انکی یتیمی کی کسک کو کچھ بانٹ لیں۔یہ اچھے مسلمان کامیاب انسان بن جائیں۔
لوگوں کے دل یتیموں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔آغوش مرکز کے چپے چپے پر گواہی ثبت تھی۔

قیمہ پاکستان دردانہ صدیقی بہن بنفس نفیس تشریف لائیں۔لائق مبارکباد ہیں وہ نفوس جو رضاکارانہ ریاست کے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔الخدمت فاؤنڈیشن خواتین کی متحرک ٹیم نویدہ انیس صاحبہ کی قیادت میں ان بچوں کو دھرتی کا مان بنانے میں سرگرم عمل ہیں۔یہ اپنے بچوں پر ان بچوں کو فوقیت دیتی ہے۔اپنا آج ان کے کل کے لیے قربان کررہے ہیں۔یہ دھرتی کے چراغ ہیں۔یہ زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے۔۔