اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سیکرٹری جنرل اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے تحریک عدم اعتماد آئندے ہفتے آئے گی یااس سے اگلے ہفتے آئے گی تاہم میں مارچ کے مہینے کو کسی بھی مارچ کے حوالے سے بہت اہم سمجھتا ہوں، مارچ میں اگر مارچ ہو تو وہ بڑا فطری لگے گا۔ پی ٹی آئی کے جو وزراء ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر بڑے، بڑے بیانات دیتے ہیں اور رات کو ٹاک شوز کے بعد پیغام بھجتے ہیں کہ ہماری گفتگو پر نہ جانا ہم مجبور ہیں ہمارے لئے کوئی جگہ بنائیںکیونکہ ان سب کو نظر آرہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ انہیں اسمبلی میں نہیں بلکہ سیاسی جہنم میں لے کر جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار احسن اقبال نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا ۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی یہ کوشش ہے کہ ہم قومی اتفاق رائے پیدا کریں۔ ہم بہت ہی گھمبیر حالات کا شکار ہیں، چاہئے وہ معیشت ہو ، چاہے وہ سفارت ہو چاہے وہ اندرونی استحکام ہے ،گزشتہ چار سالوں میں اس حکومت نے ایک کا م کیا ہے کہ ملک کے اندر پولارائزیشن بڑھائی ہے ،اس نے انتقامی کا روائیوں پر زور دیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی جو ذہنی تر جیح ہے وہ اسی پر ہے کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ سب سیاہ ہے ، سب لوگ چور ،ڈاکو ہیں ، سب لوگ کافر ہیں ، سب لوگ غدار ہیں،کسی کے ایمان پر انہیں شک ہے، کسی کی حب الوطنی پر انہیں شک ہے ،کسی کی دیانت پر انہیں شک ہے تو پاکستان آج جہاں پر کھڑا ہے، یہاں پر میں یہ بات اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ایک لیڈر ، کوئی ایک جماعت یاکوئی ایک ادارہ اگر اس خبط میں مبتلا ہو کہ وہ تنہا اس بھنور سے نکال کر ساحل پر لے جا سکتا ہے تو اس کو اپنا ذہنی علاج کروانا چاہئے ، ہم بہت مشکلات میں گھر چکے ہیں یہاں پر ہمیں قومی یک جہتی کی ضرورت ہے، ہمیں ایک ایسی قیا دت چاہئے کہ وہ سب کو بٹھائے سب سر جوڑ کر سیاست میں بھی اور قومی سطح پر جو ادارے ہیں ،سٹیک ہولڈرز ہیں اور ملک کو اس معاشی بحران سے نکالنے کے لئے سنجیدہ ا سٹرکچرل ریفارمز کریں تاکہ ہماری معیشت دوبارہ بحال ہو سکے۔ آج ہم عالمی سطح پر تنہا ہیں ہمیں کچھ سمجھ نہیں کہ ہمارارخ کیا ہے، مثال کے طور پر روس اور یوکرین کا جو تنازع ہے ، ایک طرف چونکہ وہ دورہ کر آئے ہیں اوران کے لب خاموش ہیں لیکن دوسری طرف بین الاقوامی قانون کی یہ بھی ایک بنیاد ہے کہ کیا کوئی بڑا ملک کسی ہمسائے چھوٹے ملک کے او پر جارحیت کر سکتا ہے اور اگر آپ اس اصول کو تسلیم کر لیں تو دنیا میں کسی بڑے ملک کے ساتھ بسنے والا چھوٹا ملک اپنی خود مختاری قائم نہیں رکھ سکے گا اور یہ ایک جارحیت کا بلینک چیک ہے جو آپ بڑی طاقتوں کو دے دیں گے ، یہ بھی ایک بہت اہم اصولی بات جس پر ابھی تک ہماری حکومت کا کوئی مئوقف سننے میں نہیں آیا ہے ۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ہم نے رابطے کئے ہیں اگر چہ ہم بہت پر امید ہیںکہ پی ٹی آئی کے اندر سے بھی لوگ تحریک عدم اعتماد کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں یا وہ خودکو حکومت سے الگ کرنا چاہتے ہیں اس عوامی دبائو کے تحت جو ان کو اپنے حلقوں میں محسوس ہو رہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نمبر زتقریباً پورے ہیں اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اسے یکفرطہ نہ بنائیں بلکہ اس کوایک قومی اتقاف رائے سے حکومت کی تبدیلی اور ایک نئے انتخابات کے لئے اتفاق رائے پیدا کریں اور اس لئے ہماری آخری حد تک کوشش ہو کی گہ ہم حکومت کی تمام حلیف جماعتوں کو قائل کرنے کی کوشش کریںگے کہ وہ اس اقدام میں ہمارا ساتھ دیں ۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ملک چل نہیں رہا ہے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا بھی ہے اور بین الاقومی کارجہ پالیسی کا بھی ہے لیکن اس سے بڑا مسئلہ ملک کی انتظامی گو رننس کا ہے اس حکومت نے جو انتظامی ڈھانچہ کی بنیادیں ہلادی ہیں ،من پسند تبادلے کر،کر کے نالائق انتظامیہ کوصوبوں کے اندر بٹھا دیا، اگر آپ کسی بحران کا شکار ہوں اور آپ کے انتظامی ڈھانچے میں جان ہو تو آپ اس سے نکل جاتے ہیں لیکن اگر آپ کو مشکلات کا سامنا ہو اور انتظامی ڈھا نچہ ، کشتی بھی بھنور میں ہو اور آپ کے چپوبھی ٹوٹ جا ئیں پھر تو آپ کے لئے تباہی ہے ، تو اس وقت یہ بحران ہے جس کے لئے ہم چاہ رہے ہیں کہ ملک کو انتخابات کی طرف لے جایا جائے اور اس کا ایک آئینی اور قانونی طریقہ عدم اعتماد ہے ، جس سے آپ کم سے کم معاشی یا سیاسی قیمت ادا کئے بغیر سسٹم کے اندر ایک تبدیلی لا سکتے ہیں تو اس لئے ہم اس آپشن کو کو تر جیحی بنیادوں پر استعمال کررہے ہیں۔احسن اقبال کا کہنا تھاکہ شاید ہم کوئی قدغن نہ رکھیں تو شاید آدھی پی ٹی آئی ہمارے پاس آنے کو تیار ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا پنجاب سے کوئی بھی رکن قومی یا پنجاب اسمبلی اگر اس کو گارنٹی ہو کہ اس کو آئندہ انتخابات میں (ن)لیگ کاٹکٹ مل سکتا ہے تووہ ایک پلک جھپکنے سے پہلے پارٹی چھوڑنے کے لئے تیار ہو گا۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو بھی یقین دہانی ہو کہ انہیں (ن)لیگ کا ٹکٹ ملے گا تو وہ بھی پی ٹی آئی چھوڑ کر (ن)میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ (ن)کا سوچا سمجھا مئوقف ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد نئے انتخابات کے زریعہ پانچ سال کے لئے نئی حکومت آئے اور مسائل کو حل کرے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی یہ سمجھتی ہے کہ اگر ملک کی معاشی حالت کو ٹھیک کرنا ہے توہمیںایک مستحکم مدت کے ساتھ حکومت کی ضرورت ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے الیکشن قوانین دنیا کے بہترین قوانین ہیں ، اصل مسلہ ان پر عملداری کا ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمارے ریاستی ادارے غیر جانبدار رہیں ، وہ کسی کی طرفداری نہ کریں اور سب کو ایک نگاہ سے دیکھیں تو انہیں الیکشن کمیشن کے قوانین کے زریعہ ہم پاکستان میں بہترین الیکشن کرواسکتے ہیں۔ جبکہ احسن اقبال نے جمعہ کے روز پشاور کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہایت ہی قابل مذمت اور بزدلانہ اقدام ہے۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے-یہ کس کا اسلام ہے جو عبادتگاہوں کو نشانہ بنانے کی اجازت دیتا ہے؟ نبی کریم ۖ نے تو مسجد ہی نہیں تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کا تحفظ کرنے کی تعلیم دی ہے۔جبکہ اپنے ایک اور ٹویٹ میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سیاست میں غلطی کا اعتراف کرنا اور معذرت کرنا اچھی روایت ہے۔12 مئی کے واقعات پہ معذرت کر کے خالد مقبول صدیقی نے مثبت قدم اٹھایا ہے۔