اسلام آباد(صباح نیوز)وزارتِ انسانی حقوق (MoHR) نے انسانی حقوق کے ایکشن پلان کے نفاذ کے لیے تشکیل دی گئی قومی ٹاسک فورس کا ساتواں اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس کی صدارت بیرسٹر عقیل ملک (ایم این اے/مشیر قانون ڈویژن)، سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ، اور سیکریٹری وزارتِ انسانی حقوق اے ڈی خواجہ نے کی۔ اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ محکموں بشمول ہوم، انسانی حقوق، خواتین کی ترقی، اور پولیس کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں شرکا ء نے قومی ٹاسک فورس کے چھٹے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کی پیش رفت کا جائزہ پیش کیا۔ وزیراعظم کی منظوری سے 13 فروری 2016 کو منظور اور 2020 میں نظرثانی شدہ ایکشن پلان برائے انسانی حقوق، جو آئینی تقاضوں اور بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق قانون سازی، پالیسی، اور پروگراماتی اقدامات کے لیے چھ موضوعاتی شعبوں پر مشتمل ہے،
اجلاس کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ اس ایکشن پلان کا نفاذ قومی ٹاسک فورس برائے انسانی حقوق کی نگرانی میں پورے پاکستان میں کیا جا رہا ہے۔ سیکریٹری، وزارتِ انسانی حقوق نے صوبائی حکومتوں کو سابقہ اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد تیز کرنے کی ہدایت کی، خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں معاہداتی نفاذ سیل (Treaty Implementation Cell – TIC) کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسے سیل کے قیام پر بھی زور دیا گیا۔
ان سیلز کو سات بنیادی انسانی حقوق کنونشنز، جی ایس پی+ اور دیگر علاقائی معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے ضروری رپورٹس تیار کرنے میں مدد فراہم کرنی ہے۔ مزید برآں، صوبائی ٹاسک فورسز اور ضلعی انسانی حقوق کمیٹیوں کو فعال کرنے پر بھی زور دیا گیا۔ اجلاس میں خیبر پختونخوا، بلوچستان، اور پنجاب میں کم عمری کی شادیوں کی ممانعت کے لیے مجوزہ قانون سازی کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت دی گئی، جبکہ سندھ حکومت، جس نے پہلے ہی یہ قانون نافذ کیا ہے، کو اس کے مثر اطلاق کی تاکید کی گئی۔
صوبائی نمائندوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ صوبائی کمیشن برائے خواتین کی حیثیت کے چیئرپرسن اور اراکین کی تقرری کا عمل جلد مکمل کریں، سوائے بلوچستان کے جہاں یہ کمیشن پہلے سے فعال ہے۔ ذیلی کمیٹی، جوایم این اے ومشیر قانون ڈویژن بیرسٹر عقیل ملک کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی، نے صنفی برابری کی عالمی رپورٹ 2024 میں پاکستان کی کم درجہ بندی کی وجوہات کا جائزہ لیا اور اس اسکور کو بہتر بنانے کے لیے سفارشات پیش کیں۔ اجلاس میں انسانی حقوق کے مختلف مسائل پر شماریاتی ڈیٹا کی اہمیت پر بات چیت کی گئی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ پنجاب کے ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے صنفی برابری رپورٹ تیار کریں اور صنفی مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (Gender Management Information System) قائم کریں۔ اجلاس میں یورپی یونین کے مالی تعاون سے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے ذریعے پاکستان میں نافذ کیے جانے والے انسانی حقوق کے منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ متعلقہ محکموں سے مشاورت کے بعد انسانی حقوق کی بہتری کے لیے اپنی ترجیحی شعبوں کا تعین کریں۔ مزید برآں، انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کی آئینی 18ویں ترمیم کے تحت وفاقی اور صوبائی محکموں کے مابین تقسیم پر غور کیا گیا۔ وفاقی سطح پر وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی سلامتی کی سربراہی میں انسانی حقوق ورکنگ گروپس اور صوبائی سطح پر چیف سیکریٹریز کی سربراہی میں ورکنگ گروپس کے قیام پر بھی بات چیت کی گئی۔