اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے فون ٹیپنگ سے متعلق1996میں لئے گئے ازخود نوٹس کیس میں تمام صوبوں اوراسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔بینچ نے ہدایت کی ہے کہ بتایا جائے فون ٹیپنگ کی اجازت کے حوالہ سے تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی جانب سے ججز کی تقرری کی ہے کہ نہیں جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں رپورٹس یا قانون میں دلچسپی نہیں بلکہ نتائج چاہئیں جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بتادیں فلاں، فلاں کوشش کی اور عدالتی حکم پرعملدرآمد کیا ، نتائج آنا چاہئیں، اس مقدمے کا اثر بہت سے زیر التوا مقدمات پر بھی ہوگا،قانون کودیکھ لیں کس طرح جج کی نامزدگی ہوگی، یہ دکھادیں، یہ معاملہ چیف جسٹس کے چیمبر سے شروع ہوا چیف جسٹس کہاں جائے گا۔
چیف جسٹس کس کوشکایت کرے گا۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا۔کہ قانون کے مطابق تو فون ٹیپنگ کے لیے صرف جج اجازت دے سکتا ہے، کیا کسی جج کو اس مقصد کے لیے نوٹیفائی کیا گیا ہے؟سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل7رکنی بینچ نے بدھ کے روزفون ٹپینگ کے حوالہ سے 1996میں لیئے ازخودنوٹس پر سماعت کی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان اورمیجر (ر)شبر کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا فون ٹیپنگ سے متعلق کوئی تازہ ترین قانون سازی ہوئی ہے۔اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 2013 سے قانون موجود ہے جس کے مطابق آئی ایس آئی اور آئی بی نوٹیفائیڈ ہیں، قانون میں فون ٹیپنگ کا طریقہ کار ہے، رولز بھی بنے ہوئے ہیں اور عدالتی نگرانی بھی قانون میں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بتادیں فلاں، فلاں کوشش کی اور عدالتی حکم پرعملدرآمد کیا ، نتائج آنا چاہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ قانون کے مطابق تو فون ٹیپنگ کے لیے صرف جج اجازت دے سکتا ہے، کیا کسی جج کو اس مقصد کے لیے نوٹیفائی کیا گیا ہے؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فون ٹیپنگ کا قانون مبہم ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہمیں رپورٹس یا قانون میں دلچسپی نہیں بلکہ نتائج چاہیں۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگرعدالت کاحکم ہوگاتوسرویلنس ہوگی، کوئی جج نامزدکیا ہے کہ نہیں۔ چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھاکہ سرویلنس کے لئے ہائی کورٹ کے جج کی اجازت کی ضروت ہوگی، جج کی نامزدگی بارے مجھے علم نہیں۔
جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ 1996میں ایک اُردواخبارکی خبر پر ازخودنوٹس لیا گیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ قانون غیر مئوثر ہے یاکوئی جج نامزد ہے، چیف جسٹس نے نامزدگی کرنی ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جج ہے یاہائی کورٹ کاجج ہے قانون میں نہیں بتایا گیا۔ جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کا اثر بہت سے زیر التوا مقدمات پر بھی ہوگا،قانون کودیکھ لیں کس طرح جج کی نامزدگی ہوگی، یہ دکھادیں، یہ معاملہ چیف جسٹس کے چیمبر سے شروع ہوا چیف جسٹس کہاں جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جب قانون آیااُس وقت ہائی کورٹ کے جج سے اجازت لی جاتی تھی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے جج ہونے چاہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کس جج کی نامزدگی ہوگی اس کاذکر نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اجازت کے غلط استعمال پر متعلقہ جج شکایت سن سکتاہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مسکراتے ہوئے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چیف جسٹس کس کوشکایت کرے گا۔ جبکہ میجر (ر)شبر کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ(اے او آر)نے کہا کہ اس مقدمے میں اپنے مئوکل سے رابطہ نہیں ہو رہا جبکہ میجر(ر) شبر کے وکیل بھی گزشتہ سال فوت ہو چکے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز نے انویسٹی گیشن آف فیئرٹرائل ایکٹ 2013کے ایکٹ پر عملدرآمد کے لئے کوئی ججز کی نامزدگی کی کہ نہیں جبکہ بینچ نے تمام صوبوں اورایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
جبکہ بینچ نے رجسٹرارآفس کوہدایت کہ ہے حکمنامہ کی کاپی تما ہائی کورٹس کے رجسٹرارز کوبھجوائی جائے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ رولز بنے ہیں کہ نہیں وہ لے کرآئیں۔ بینچ کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔