کراچی(صباح نیوز) اپوزیشن لیڈر کے ایم سی و نائب امیر جماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سینکڑوں ارب کے اخراجات کے باوجود کراچی کی حالت بد تر ہوتی جارہی ہے۔ سندھ حکومت،کے ایم سی اور دیگر اداروں کی بد ترین کار کردگی کے باعث کراچی کے شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے ، ٹھیکوں میں کرپشن اور بے قاعد گیوں کی شکایات زبان زد عام ہیں۔ ترقیاتی کاموں کی منظوری کونسل سے لینا ضروری ہے لیکن ایک کی بھی منظوری نہیں لی گئی اربوں روپے کے ٹھیکے بلا ٹینڈردے دیئے گئے،
ا ن خیالات کا اظہار انہوں نے کے ایم سی بلڈنگ میں پریس کانفرنس سے خطا ب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پرپی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر مبشر الحق حسن زئی، جماعت اسلامی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈرز قاضی صدر الدین،جنید مکاتی، اراکین کونسل محمد عمیر،محمد ابرار،یوتھ کونسلر تیمور ودیگر اراکین کونسل ویوسی چیئر مین بھی موجود تھے۔سیف الدین ایڈوکیٹ نے مزید کہا کہ اس وقت ڈی جی ٹیکنکل سروسز، میونسپل کمشنر کے ایم سی اور وزارت بلدیات کے دفاتر پر الزامات ہیں کہ وہ کرپشن کے گڑھ بنے ہوئے ہیں جس کی ذمہ داری سے مرتضیٰ وہاب اور سعید غنی ہر گز بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔انہوں نے مرتضیٰ وہاب کی جانب سے کراچی کے تاجرو ں کے حوالے سے بیان کی شدید مذمت کی اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ کراچی کے تاجر ہی ہیں جو بھتہ خوری اور شہر کے تباہ حال انفرااسٹرکچر کے باجوود اتنا ٹیکس دے رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اور سندھ حکومت کا 95 فیصد بجٹ چل رہا ہے، اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ مرتضیٰ وہاب کا نہ کوئی وژن ہے نہ ان میں اہلیت و صلاحیت ہے وہ ایک پیرا شوٹر ہیں اور بلاول زرداری کے مشیر بن کر کراچی سے رہی سہی دلچسپی بھی کھو چکے ہیں،
پیپلز پارٹی کو ان سے ان کی ناکامیوں کے باعث ان سے استعفیٰ لے لینا چاہیئے ۔انہوں نے کہا کہ کلک کے اربوں روپے کے ٹھیکے بغیر کسی ٹینڈر کے من پسند ٹھیکے داروں کو دے دیئے گئے جن میں سے اکثر جگہ کئے گئے کام چند دنوں میں ہی ناکارہ ہو گئے اس وقت بھی اربوں روپے کے ٹینڈر کئے گئے ہیں لیکن شہر میں سڑکوں اور سیوریج کے نظام میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے، کلک نے 240 ملین ڈالرز اور واٹر کارپوریشن نے 1.6 بلین ڈالرز ترقیاتی کاموں کے نام پر قرضوں کے جو معاہدے کیے ہیں اور یہ سب رقم ترقیاتی کامو ں پر لگے یا من پسند ٹھیکے داروں اور ٹھیکے دینے والوں کی جیبوں میں جائے، کراچی کے شہریوں کو یہ بھاری رقم ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ناکام ترین ادارہ بن چکا ہے۔ حال ہی میں نئے معاہدوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کیا گیا کہ اس سے 30 فیصد بچت ہوگی، مرتضیٰ وہاب بتائیں کہ پہلے 30 فیصد زیادہ دینے کی ذمہ دار تو پیپلز پارٹی کی حکومت ہی تھی اس نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ واٹر ٹینکر لوگوں کو رشوتوں میں بانٹے جارہے ہیں ، ایس بی سی اے غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی کر رہی ہے اور کھربوں روپے کا کال دھن اس میں گردش کر رہا ہے جس کا ناکوئی ریکارڈ ہے اور نہ اس پر کوئی ٹیکس ۔ مسجدوں کے ٹرسٹ پر پابندیاں لگانے والے بتائیں فیٹف کے قوانین کہاں چلے گئے؟ ۔