فلسطینیوں کویقین ہونا چاہیے کہ وہ “فاتح” ہیں۔خالد مشعل

 دوحہ(صباح نیوز)اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے خارجہ امور  کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ ہمارے خطے اور تاریخ میں سبق یہ ہے کہ صلیبیوں کو فلسطین میں سو سال اور اس خطے میں دو سو سال بعد منگولوں کو بھی شکست ہوئی۔ جدید استعمار ٹوٹ چکا اور تمام نوآبادیاتی دراندازوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ ہم “فاتح” ہیں۔مرکز اطلاعات فلسطین  کے مطابق  ایک انٹرو یو میں خالد مشعل نے زور دے کر کہا ہے کہ طوفان الاقصی نے مسجد اقصی کو شہید کیے جانے کے مذموم صہیونی منصوبے کوناکام بنایا اور اس کے مکروہ عزائم کے سامنے بند باندھا۔ صیہونی وجود کو الجھا دیا۔  عوام میں مزاحمت کی روح بحال کی جس نے دشمن کو گھیرے میں لے لیا۔

انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی نے صہیونی دشمن کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔العربی چینل سے  انٹرویو میںانہوں نے کہا کہ  غزہ میں ہمارے لوگ ہمارے لیے فخر کی علامت ہیں۔ ان کے دکھ ہمیں عزیز ہیں۔ اس لیے ہم پچھلے دور میں جتنا کام کر رہے ہیں اتنا ہی انتظام کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ جنگ جیتنی ہے۔ ہم جارحیت روکنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں تاکہ ہماری زخم رسیدہ قوم کو راحت مل سکے۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکمت عملی کے نقصانات کے بارے میں ان کے پچھلے بیانات کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے حکمت عملی کے نقصانات مزاحمت کی سطح پر تھے، لیکن جہاں تک ہمارے لوگوں سے متعلق ہمارے نقصانات کا تعلق ہے تو یہ ہمارے لوگ ہیں۔مزاحمت ان سے الگ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حماس اپنے عوام کے خلاف جارحیت کو روکنے میں کبھی ناکام نہیں ہوئی اور نہ ہی اس عظیم سواد اعظم کو ریلیف فراہم کرنے میں اس نے کوئی کوتاہی برتی ہے۔اس پر ہم فخرکرتے ہیں۔ غزہ میں اپنا سر اٹھا کر چلتے ہیں۔یہ تاریخ کے سب سے بڑے مقبول انکیوبیٹروں میں سے ایک ہے، ہماری مزاحمت اپنے عظیم عوام کے لیے لڑ رہی ہے۔مذاکرات کی فائل خالد مشعل نے نشاندہی کی کہ تحریک غزہ کے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی میدان میں مصری اور قطری ثالثوں اور دیگر ثالثوں کے ذریعے مذاکرات کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا گواہ ہے حتی کہ امریکی انتظامیہ بھی لیکن وہ متعصب ہے۔ نیتن یاھو جنگ بندی اور مذاکرات میں اصل رکاوٹ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ “بائیڈن نے ایک اقدام کیا، پھر اسے سلامتی کونسل میں منظور کر لیا گیا۔ حماس نے اسے فراخ دلی سے قبول کیا اور اس پر مثبت رد عمل دیا مگر نیتن یاھو کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بدقسمتی سے ثالث کچھ نہیں کر سکے۔لیکوڈ صہیونی ایجنڈے کی بنیاد پر جنگ جاری رکھنے پر مصر ہے۔بیرون ملک تحریک کے سربراہ نے کہا کہ ان کی جماعت نے فلسطینی مزاحمتی دھڑوں کے ساتھ ہم آہنگی سے جنگ شروع کی۔اس شدید جنگ میں غزہ کی حمایت کے لیے کئی اجلاس منعقد کیے۔ایسے مذاکرات کا انتظام بھی کیا جو جنگ بندی کا باعث بنیں اور غزہ کے خلاف جارحیت کو روکیں۔جنگ کے بعدجنگ کے بعد غزہ کے مستقبل کے بارے میں سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ “دشمن تجویز کر رہا تھا کہ غزہ پر جنگ کے بعد اسی کی حکومت ہوگی۔پھر انہیں معلوم ہوا کہ یہ محض ایک خواہش ہے۔ ان کے تجربے سے شیرون ذلیل ہو کر وہاں سے نکلا اور بالکل اسی طرح اسی ذلت رسوائی کا سامنا نیتن یاھو بھی کرے گا۔ انہوں نے نیٹزارم کو چھوڑ دیا۔ ان شا اللہ یہ قابض تل ابیب سے نکل جائے گا، کیونکہ یہ ہماری سرزمین ہے ان کی سرزمین نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ “اسرائیلیوں نے کہا کہ ہم غزہ میں ایک انتظامیہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ عرب اور بین الاقوامی افواج کے بارے میں بات کر رہے تھے اور انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کو بھی مسترد کر دیا۔ پھر امریکی آئے اور کہا کہ ایک نئی اتھارٹی ہو سکتی ہے۔ مگر انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ فلسطینی قوتیں متحد ہوچکی ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ مصر نے ایک آپشن پیش کیا اور حماس نے اس پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ وہ یہ ایک قومی مفاہمتی حکومت تشکیل دی جائے جو غزہ کا انتظام سنبھالے جس میں غزہ اور مغربی کنارا شامل ہوں۔مزاحمتی محاذحمایتی محاذوں کے بارے میں مشعل نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمتی اور حمایتی قوتوں کو اپنے قائدین کے قتل کی قیمت چکانی پڑی ہے۔ ہم سید حسن نصراللہ ، اسماعیل ھنیہ، صالح العاروری سے محروم ہوئے ہیں۔مگرہم سب فلسطین کی آزادی کے لیے قربان ہونے کو تیار ہیں۔خالد مشعل نے کہا کہ “جب نیتن یاہو ڈیٹرنس کی تصویر کو بحال کرنے میں ناکام رہا اور غزہ میں پورے ایک سال تک کچھ حاصل نہیں کر سکا تو وہ لبنانی محاذ کی طرف بھاگا تاکہ امیج کا کچھ حصہ بحال کر سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ “ہمارے خطے اور تاریخ میں سبق یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صلیبیوں کو فلسطین میں سو سال اور اس خطے میں دو سو سال بعد منگولوں کو بھی شکست ہوئی۔ جدید استعمار ٹوٹ چکا اور تمام نوآبادیاتی دراندازوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ ہم “فاتح” ہیں۔