پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یاسر حسین دریا

کراچی(صباح نیوز)  کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے زیر اہتمام موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کلائمٹ ایکشن اسینٹر (سی اے سی) کے ڈائریکٹر یاسر حسین دریا نے کہا کہ جب ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم فطرت اور نیچر کی بات کر رہے ہیں یعنی ہم زمین ،پانی اور ہوا کی بات کر رہے ہیں،ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ہمیں فطرت کے ساتھ مل کر رہنا ہے اگر ہم فطرت کے ساتھ مل کر نہیں رہیں گے تو وہ ہمیں کسی اور طریقے سے نقصان پہنچائے گی جس کی سب سے بڑی مثال کووڈ 19 ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جس کا کرئہ ارض کے ماحولیات کو خراب کرنے میں حصہ صرف ایک فیصد ہے لیکن اسے موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا سب سے زیادہ  سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ اس پرجنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے اثرات بھی پڑرہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے دو بین الاقوامی شہر لاہور اور کراچی میں فضائی آلودگی کا گراف بہت ہائی رہتا ہے۔ کراچی کی حالیہ مردم شماری کے اعداد وشمارکے مطابق1 کروڑ 70 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کے ساتھ آلودہ ترین شہروں کے فہرست میں 12 ویں نمبر پر ہے جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آباد ی تین کروڑ 30 لاکھ نفوس خیال کی جاتی ہے ۔ایسے گنجان آباد شہر میں گرمی یا درجہ حرارت کا بلند ہونا فطری تقاضہ ہے۔ رواں سال جون کے مہینے میں پوری دنیا میں گرمی کی شدت ماضی سے کہیں زیادہ محسوس کی گئی ۔ 28 جون 2024 کو فلاحی ادارے ایدھی فائونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے ہمیں اپنے مراکز میں گرمی کی شدت سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 128 بتائی جس پر سرکاری حکام یقین نہیں کررہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گرین ہائوس گیسوں میں کمی لائے بغیر دنیا کا ماحولیاتی نظام بہتر نہیں ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کچھ ایسی چیزیں وقوع پذیر ہو چکی ہیں جو واپس نہیں ہو سکتی ہیں جس کی مثال دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے جو بہت تیزی سے اوپر جا رہا ہے اور اب یہ مستقل ہو چکا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ ملک ہے جو یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے اس کا نقصان ہو گا بلکہ ہمارا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان میں قدرتی آفات جیسے سیلاب، درجہ حرارت میں اضافہ ،زلزلے و دیگر کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ان کا تعلق مقامی افراد کی کوتاہیوں کے ساتھ بیرونی دنیا کے اثر انداز ہونے والے عوامل پر بھی ہے۔ 2010 کے سیلاب کی وجہ افغانستان اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی طوفانی بارشیں تھیں۔ اسی طرح 2022 کے سیلاب کی وجہ بھی شدید طوفانی بارشیں تھیں۔ یاسر حسین کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش ہم سے زیادہ کلائمیٹ فنڈ لے چکا ہے کیوں کہ وہ ہم سے زیادہ منظم ہے۔ تھر کول کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بتدریج نئے پلانٹ کی طرف جانا ہو گا اور ایسی اسکیمیں موجود ہیں ،ایشیائی ترقیاتی بینک پورا کوئلے کا پلانٹ خرید لے گا اور اس ضمن میں ہمیں کلائمٹ فنڈ بھی مل سکتا ہے اس کے ساتھ ہی متبادل توانائی کے ذرائع کی طرف جانا ہو گا ،ماہرین کے مطابق امپورٹیڈ کول کسی بھی صورت میں سولر سے ستا نہیں ہے۔سی پی این ای سندھ کے نائب صدر عامر محمود نے موسمیاتی تبدیلی پر سی پی این ای کے اشتراک عمل سے کام کرنے کی دعوت دی ، جسے انہوں نے قبول کیا۔تقریب کے اختتام پر سی پی این ای کے فنانس سیکریٹری حامد حسین عابدی نے یاسر حسین دریا اور سی اے سی کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ اس اجلاس میں نائب صدر سی پی این ای عامر محمود، پروگرام آرگنائزر محمود عالم خالد، فنانس سیکریٹری حامد حسین عابدی، جوائنٹ سیکریٹری منزہ سہام، سینئر اراکین ڈاکٹر جبار خٹک، عبدالخالق علی، ایاز میمن، قاسم سومرو، علی بن یونس، سلمان قریشی، شاہد ساٹی ، خوشی محمد، رحمان سکندر، آصف جمیل اور سی اے سی نمائندگان جویریہ اور آفاق احمدبھی موجود تھے۔