مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں پر ظلم و ستم میں اضافہ


 سری نگر— نریندر مودی کے دور حکومت میں بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں سمیت اقلیتوں پر ظلم و ستم میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیاہے۔جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے، ہندوتوا قوتوں نے اقلیتوں کی بقا کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے جس سے وہ مسلسل خوف ودہشت اور عدم تحفظ کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بھارتی حکومت نے امتیازی قوانین اور پالیسیوں کے ذریعے منظم طریقے سے اقلیتوں کو دیوارکے ساتھ لگا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے جس نے بھارت کو اپنی اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک بنا دیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کو خاص طور پر گائے کے گوشت کے استعمال یا مویشیوں کی نقل و حرکت کے خلاف قوانین کے تحت تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہندوتوالیڈروں کی طرف سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی مذہبی شخصیات اور علامتوں کی توہین کرنا ایک تکلیف دہ معمول بن چکاہے۔ مساجد اور گرجا گھروں کو مسمارکیاجارہا ہے جس سے ملک کے سیکولر تانے بانے کوتباہ کیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے ماضی میں اقلیتوں کے تحفظ میں حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرتے ہوئے بھارت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مذمت کی ہے۔ عالمی برادری کو مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے بھارت میں ہندوفسطائیت کو تسلیم کرنا اور اس کا جواب دینا چاہیے۔بھارت کے جمہوری اور سیکولر نظریات کا زوال جاری ہے۔رپورٹ میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مداخلت کریں اور اقلیتی برادریوں کے حقوق کی حفاظت کریں۔ دنیا کو بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر مظالم کو تسلیم کرنا چاہیے اور بھارتی حکومت سے ان سلسلے میں ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔وزیر اعظم مودی کا بنیادی مقصدبھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے جو ملک کے تنوع اور تکثیریت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔