جمعیت طلبہ عربیہ کا اکتوبر ،نومبر میں ،، اتحاد طلبہ مدارس،، مہم کا اعلان

پشاور(صباح نیوز)جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان  نے ماہ اکتوبر ،نومبر میں اتحاد طلبہ مدارس  مہم کا اعلان کر دیا۔ مہم کے ذریعے مدارس کے طلبہ کو متحد اور بیدار کیا جائے گا اس  مہم کے ذریعے مدارس کے طلبہ کو متحد اور بیدار کیا جائے گا اس مہم کا مقصد طلبہ کو یکجا کر کے ان کے اجتماعی مطالبات کو تسلیم کروانا ہے۔ جن میں اسلامی نظام تعلیم کا قیام، طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ،  ہر سطح کی اسناد کو قانونی حیثیت دلوانا اور اعلی تعلیم کے مواقع کی فراہمی شامل ہیں۔ مدارس کی تمام اسناد کو قانونی حیثیت حاصل نہ ہونے کے باعث مدارس کے طلبہ کا تعلیمی اور معاشی استحصال ہو رہا ہے ۔ روزگار کے یکساں مواقع فراہم نہیں ہو رہے۔ طبقاتی نظام تعلیم نے طلبا کو کئی حصوں میں منقسم کر دیا ہے۔مدارس کے اکانٹس اور رجسٹریشن کے مسائل درد سر بنے ہوئے ہیں ۔ رجسٹریشن کے پراسیس کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے ۔ مدارس کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی روک تھام ہونی چاہیے دینی مدارس کے طلبہ کو اندرون  و بیرون ممالک اعلی تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔ ایم اے ایکویلینس کی موجودگی میں مدارس کے طلبہ کو بیشتر یونیورسٹیز میں اعلی تعلیم کے لیے داخلہ نہیں دیا جاتا جو کہ مدارس کے طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔مہم کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلے مرحلے میں مہم کی تشہیر ، علما کرام، مدارس کے مہتممین ، مدارس کے بورڈز کے ذمہ داران ،صحافی برادری اور حکومتی نمائندگان تک مہم کے اغراض و مقاصد پہنچائے جائیں گے اور مدارس کے طلبہ کے مطالبات سامنے رکھے جائیں گے۔ مہم کے دوسرے مرحلے میں تمام صوبائی ہیڈکوارٹرز اور بڑے شہروں میں کنونشنز کیے جائیں گے۔  23 اکتوبر کراچی، 30 اکتوبر ملتان ، 3 نومبر پشاور اور 14 نومبر کو لاہور میں مرکزی کنونشنز منعقد ہوں گے۔جس میں طلبہ کو بڑی تعداد میں جمع کر کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ مہم کے دوران قومی کانفرنس کا انعقاد لاہور میں کیا جائے گا جس میں تمام وفاق کے صدور، ناظمین اعلی اور وزارت تعلیم کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا۔1982 میں مدارس کی ایک سند شہاد العالمیہ کو قانونی طورپر منظور کیا گیا لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ 42 سال گزرنے کے باوجود مدارس کی دیگر ذیلی اسناد کو قانونی حیثیت نہیں دی گئی۔ ماضی قریب میں اس حوالے سے بارہا کوششیں کی گئیں لیکن نتیجہ صفر ہے  مدارس کے چالیس لاکھ طلبہ کا مستقبل اس وقت تاریک ہے اور ملکی قومی پالیسی کے تحت اس کو کوئی خاطر خواہ حیثیت حاصل نہیں ۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب آغا خان کو پرائیویٹ تعلیمی بورڈ کا درجہ دیا جا سکتا ہے  تو مدارس کے لیے بورڈ تشکیل کیوں نہیں دیا جاسکتا ۔ جب O level اور A level کے طلبہ کو بغیر کسی شرط کے  ایکویلنس جاری کیا جاتا ہے تو مدارس کے طلبہ کے لیے اضافی شرائط کیوں عائد کی جاتی ہیں ۔جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان مدارس کے طلبہ کی نمائندگی کرے گی اور مسائل کے حل کے لیے ارباب اختیار کو مجبور کرے گی کہ وہ چالیس لاکھ طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے کی بجائے انہیں ملک کا باعزت اور باوقار شہری بنانے میں پالیسی مرتب کریں۔ان خیالات کا اظہار محمد افضل منتظم اعلی جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ جبکہ مرکزی جنرل سیکرٹری جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان حافظ اعجاز الحق ، ڈپٹی جنرل سیکرٹری حافظ صفی اللہ ، منتظم جمعیت طلبہ عربیہ خیبرپختونخوا محمد نعمان مسرور ، منتظم ضلع پشاور بلال حسین خاکسار اور دیگر ضلعی و صوبائی قائدین بھی ساتھ موجود تھے۔