آج کل ملک کے سیاسی منظر نامہ پر سیاست کم اور ریٹائرڈ جنرل فیض کے کورٹ مارشل پر زیادہ گفتگو ہو رہی ہے۔ جس سے ملیں وہ اسی پر بات کر رہا ہے۔ پہلے دن عمران خان نے فیض کی گرفتاری سے اعلان لاتعلقی کر کے کہانی کو ایک موڑ دینے کی کوشش کی اور اپنی ٹیم کو بھی یہی ہدایات دیں کہ اس معاملہ سے دور رہیں۔ اس لیے فیض کو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سے وہ حمایت نہیں ملی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹرولرز نے خود کو فیض کے معاملہ سے کافی حد تک دور ہی رکھا ہے۔ انھوں نے نہ حمایت کی اور نہ ہی مخالفت کی ہے۔
اس لیے ان کی خاموشی معنی خیز بھی نظر آئی ہے ۔اس کے بعد کہانی نے دوسرا موڑ تب لیا جب بانی تحریک انصاف نے یہ کہنا شروع کیا ہے۔ کہ فیض کو ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ سب حیران ہوئے چند دن پہلے فیض کو اثاثہ قرار دینے والے بانی پی ٹی آئی چند دن میں اس خطرہ کا شکار ہو گئے کہ ان کے اثاثے کو انھی کے خلاف وعدہ معاف گواہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بانی تحریک انصاف کو یہ سوچ بھی کیسے آئی ان کے قیمتی اثاثے کو انہی کے خلاف بطور وعدہ معاف گواہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کا اس حوالے سے موقف ہے کہ بانی تحریک انصاف کا یہ موقف درست ہے کہ فیض کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ تھیں اور وہ ہماری مدد بھی کر رہے تھے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آرمی چیف بننے کے لیے جب انھوں نے لابنگ کی تو انھوں نے اپنی تمام تر وفاداریوں کا یقین ن لیگ کی قیادت کو کروایا تھا۔ سب سے معافیاں بھی مانگی تھیں اور یہ یقین بھی دلانے کی کوشش کی کہ وہ تحریک انصاف کے خلاف ہیں۔ انھیں بس ایک موقع دیا جائے۔
وہ تو ن لیگ نے ان کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود ان پر یقین نہیں کیا اور انھیں آرمی چیف نہیں بنایا۔ اس لیے تحریک انصاف کے دوست یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ایک موقع پرست اور مفاد پرست ہیں۔ وہ اپنے مفاد میں فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ تو جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد وہ دوبارہ تحریک انصاف کے قریب آگئے۔ کیونکہ تحریک انصاف بھی آرمی چیف عاصم منیر کے خلاف تھی اور فیض بھی خلاف تھے۔ اس لیے دونوں کا ہدف ایک ہی تھا۔ اس لیے دونوں دوبارہ قریب آگئے۔ لہذا ان کی وفاداری پر شک ہے۔ اسی شک کی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن جائیں گے کیونکہ وہ اپنے مفاد کے لیے فیصلہ کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ فیض کا فیلڈ کورٹ مارشل شروع ہو چکا ہے۔ ان کے ساتھ ابھی تک ان کے تین ساتھی جن میں دو ریٹائرڈ بریگیڈئر اور ایک کرنل شامل ہیں گرفتار ہو چکے ہیں۔ کیا ان تینوں افسران کے اقبالی بیانات میں بانی تحریک انصاف اور عدلیہ کے خلاف ایسا موقف ہو گا کہ بات ان کے خلاف بھی آگے بڑھائی جا سکے۔ کیا انھوں نے تحریک انصاف کی مدد کے لیے جو بھی کیا ہے، عدلیہ میں بھی جو سہولت کاری کی گئی ہے وہ بھی فیض کے کہنے پر کی گئی ہے۔ یہاں یہ اہم ہوگا کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو قبول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں۔
اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو نہیں مانتے تو پھر استغاثہ کو ان الزامات کو ثابت کرنا پڑے گا۔ پھر وعدہ معاف گواہی والا راستہ نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں اگر کیس ثابت ہو جائے تو سزا بھی سخت ہوتی ہے۔ کوئی رعایت بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر انھوں نے سخت ترین سزا سے بچنا ہے تو پھر الزامات قبول ہی کرنے ہونگے ورنہ فیلڈ کورٹ مارشل میں سخت سزا ہوتی ہے۔ اگر یہ تینوں افسران وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں تو فیض کے لیے اپنا کیس لڑنا بہت مشکل ہو جائے گا۔انھیں ایک طرف استغاثہ کے الزامات کا دفاع کرنا ہے تو دوسری طرف اپنے ہی ساتھیوں کی گواہیوں میں لگائے گئے الزامات کا دفاع بھی کرنا ہے۔
مجھے قانونی طور پر فیض حمید بہت مشکل میں نظر آتے ہیں۔ ابھی ہمیں باقی شریک ملزمان کا علم نہیں۔ ہم تو ان تینوں کو سامنے رکھ کر ہی منظر نامہ بنا رہے ہیں جن کی گرفتاری فوج نے ظاہر کی ہے۔ اور جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ ان کا بھی ساتھ فیلڈ کورٹ مارشل ہو رہا ہے۔ باقی ساتھیوں کے بارے میں ابھی کہانیاں ہیں۔ کون کون اس میں شامل ہے۔ لوگ بہت نام لے رہے ہیں۔ لیکن جب تک کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوتا ۔ بات کی تصدیق نہیں ہوتی تب تک ابہام موجود ہے۔ فیض اور عمران خان کی گفتگو کا رازدان ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جیل بھی تحویل میں ہے۔ یہ گفتگو اور پیغام رسانی کس نوعیت کی ہے۔اس کی تفصیلات بھی ابھی سامنے نہیں ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس