لاہور میں پاکستان فورم اجلاس، سیاسی قیادت کو ڈائیلاگ کا آپشن اختیار کرنے کا مشورہ


 لاہور(صباح نیوز) سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری کی رہائش گاہ پر منعقدہ پاکستان فورم کے ماہانہ اجلاس میں ملکی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ دار اہل سیاست کو ٹھہرایا گیا اور کہا گیا کہ سیاستدانوں نے ملک میں استحکام کیلئے ڈائیلاگ کا آپشن اختیار نہ کیا اور ملکی مسائل پر سنجیدگی ظاہر نہ کی تو پھر ملک میں سیاسی خلاء کوئی اور پورا کرے گا اور ذمہ دار سیاستدان ہوں گے اجلاس میں مجیب الرحمن شامی، بیگم منہاز رفیع، بریگیڈیئر فاروق حمید، قیوم نظامی، سلمان غنی، سلمان عابد، کرنل فرخ، ارشاد عارف، سعید آسی، میاں سیف الرحمن، تنویر شہزاد و دیگر موجود تھے

اجلاس کے شرکا نے ارشد ندیم کو ملنے والے گولڈ میڈل کو مایوسی کی کیفیت میں امید کی کرن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ارشد ندیم کی محنت  نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے اور نوجوان ہی ملک کے روشن اور محفوظ مستقبل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اجلاس کے شرکا نے بنگلہ دیش میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کو اہل سیاست کیلئے لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی مخالفین کو کچلنے اور انہیں دیوار سے لگانے کی روش ہمیشہ تناؤ کا باعث بنتی ہے قوم کے اندر تقسیم پیدا ہوئی ہے بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے جمہوریت کے نام پر قائم فاسٹ سسٹم کے خلاف بغاوت کی اور حسینہ واجد کو بھاگنے پر مجبور کیا۔

اجلاس میں ملک میں اداروں کے درمیان پیدا تناؤ کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ صورتحال کا تدراک آئین پاکستان کو بروئے کار لا کر کیا جا سکتا ہے آئین میں سب کی ذمہ داریوں کا تعین ہے اور اداروں کے درمیان اتفاق رائے ہی ریاست کی مضبوطی کا ضامن ہے اجلاس میں سیاسی بحران کا حل ڈائیلاگ کے ذریعہ ممکن بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ اہل سیاست نوشتہ دیوار پڑھیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں اور ایک دوسرے کے کردار کو ہضم کریں ورنہ سسٹم کیلئے خطرات کھڑے رہیں گے۔

اجلاس میں کہا گیا کہ عوام کیلئے ریلیف کا بندوبست نہ ہوا تو حالات حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے اجلاس میں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی مذاکرات کا راستہ اپنائیں اسمبلی سے ہی ان کیلئے راستہ نکلے گا اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کے سیاسی معاشی اور سکیورٹی کے معاملات بہت بگڑ چکے ہیں ہم نے مجموعی طور پر ہوش مندی کا مظاہرہ نہ کیا تو ملک میں مزید انتشار ہوگا ریاستی اداروں سمیت حکومت اور عدلیہ کی لڑائی ملک کے مفاد میں نہیں اور جو بھی فیصلہ آتا اسے تسلیم کرنا چاہئے سیاسی جماعت کو طاقت اور قانون کے ذریعہ ختم نہیں کیا جا سکتا اس سے سیاسی انتشار بڑھے گا بنگلہ دیش کے حالات ہم سے مختلف نہیں مگر ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور اپنے داخلی مسائل پرتوجہ دیں وگرنہ یہاں بھی عوام میں غصہ پیدا ہوگا اور ردعمل بنگلہ دیش سے مختلف نہیں ہوگا۔