راولپنڈی ( صباح نیوز ) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دھرنا کے آئندہ مرحلہ میں اہم شاہراہوں پر بیٹھیں گے ، کل سے گورنر ہائوس سندھ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا آغاز ہو رہاہے ، حکمرانوں کی نااہلی کا عذاب پوری قوم بھگت رہی ہے، آئی پی پیز حکومت کی مجبوری نہیں بلکہ نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے، حکمران کہتے ہیں کہ معاہدے قوم کے سامنے نہیں لاسکتے، یہ عوام کا خون نچوڑ سکتے ہیں، بل بڑھا سکتے ہیں، لیکن معاہدے سامنے نہیں لائے سکتے،اب ظلم نہیں چلے گا، آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔راولپنڈی دھرنے کے پانچویں روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا دھرنے کی تعریف پر شکریہ ادا کیا اورکہا تحریک تحفظ آئین پاکستان سے رابطہ اور ملاقاتیں ہیں، وہ یہاں تشریف لائیں ان کو ویلکم کریں گے، ہمارا اصولی موقف ہے کسی
اتحاد میں شامل نہیں ہونگے۔
انہوں نے کہا تحریک تحفظ آئین نئے الیکشن کی بات کرکے اپنے فارم 45 والے موقف سے دستبردار ہورہی ہے، جو اتنے کنفیوژ ہیں انہیں کیا کہیں۔نائب امراء لیا قت بلوچ، میاں اسلم، سیکرٹری جنرل امیرا لعظیم،ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ عثمان فاروق، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف ، امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی جاوید قصوری، سیکرٹری جنرل کے پی عبدالواسع ، ڈائریکٹرڈیجیٹل میڈیا سلمان شیخ و دیگر قائدین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ امیر جماعت نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اعلان کریں کوئی وزیر اور سرکاری آفیسر 1300 سی سی سے زائد گاڑی استعمال نہیں کریں گے، بڑی گاڑیوں کی بندش سے 350 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، اس پر وزیراعظم کام کیوں نہیں کر سکتے، حکمران قوم کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار نہیں ہے، عوام بلز اور ٹیکسوں کی صورت میں ان کی عیاشیوں کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظالم حکمرانوں نے بنیادی اشیائے خوردونوش پر 18 فیصد تک ٹیکس لگادیا، بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگادیا، عوام بل دیں ، یا راشن خریدیں۔غریب ، متوسط طبقات کے علاوہ اب تو صنعتکار تک متاثر ہے، صنعتیں بند ہورہی ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے آئی پی پیز پیپلزپارٹی کے دور حکومت سے شروع ہوئے، پہلے 35 کمپنیوں سے معاہدے ہوئے اور پھر مشرف دور میں 45 کمپنیوں اور پھر نوازشریف کے زمانے میں تقریبا 120 کمپنیوں سے بات ہوئی، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی تقریبا 30 سے 35 کمپنیوں سے بات ہوئی، اور اس وقت بھی 100 سے 124 آئی پی پیز کی فہرست آتی ہے، حقائق قوم کے سامنے نہیں لائے جاتے۔ ان معاہدوں میں جو ظلم ہوا اس حوالے سے ایک آئی پی پی کا حوالہ دیتا ہوں جو اس وقت چل رہی ہے، حکومت کہتی ہے آپ آر ایل این جی پر اس کو چلائیں، اس کا جو ایف سی سی ہوتا ہے یعنی فیول کی قیمت 24.01 کلو واٹ فی گھنٹہ ہے جو مئی کے مہینے میں ادا کی گئی اور جون میں 24.78 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ پڑا، اگر یہ امپورٹڈ کوئلہ پر بھی لیتے تو 16.82 اور 15.53 پڑتا، اس کا مطلب تقریبا 7 سے 9 روپے کا فرق ہے اور اگر یہ تھرکول پر ہوتا تو یہ مزید 40 فیصد کم ہوتا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آر ایل این جی کیوں استعمال کروارہے ہیں ؟ یہ اس لئے کہ انہوں نے ناجائز معاہدے کئے ہوئے ہیں، انہوں نے کک بیک لئے ہوں گے تب ہی تو یہ معاہدہ ہوئے ہوں گے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی کا عذاب پوری قوم بھگت رہی ہے، آئی پی پیز حکومت کی مجبوری نہیں بلکہ نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے لیکن ممکن نہیں رہا کہ لوگ بھاری بل کے ساتھ اپنی ضروریات پوری کرسکیں،حکومت جلد اقدامات کرے ورنہ دھرنے کا وسیع ہوتا چلا جائے گا یہ لوگ کھانے پینے کی چیزوں پر بھی ٹیکس لگادیتے ہیں، انہوں نے بنیادی اشیائے خوردونوش پر 18 فیصد تک ٹیکس لگادیا، بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگادیا، اس کے بعد لوگ کچھ کھائیں، پئیں، بل دیں یا گھر کا کرایہ دیں۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے کاروباری تو چھوڑیں اب تو بڑے کاروباری بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری صنعت نہیں چل رہی کیونکہ حکومت کی جو ظالمانہ پالیسی ہے ، اس کے نتیجے میں صنعتیں بند ہورہی ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حکومت یہ بات کہتی ہے کہ ہماری مجبوری ہے، یہ مجبوریاں نہیں بلکہ نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے جو پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے، جب کہ ہمارے وزرا یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم آئی پی پیز سے بات نہیں کرسکتے۔ آپ قوم کا خون نچوڑ سکتے ہیں، بل زیادہ کرسکتے ہیں، لیکن معاہدے سامنے نہیں لائے جاسکتے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ ان معاہدوں میں ظلم ہی ظلم ہے، یہ آر ایل این جی کیوں استعمال کروارہے ہیں تو وہ اس لئے کہ انہوں نے ناجائز معاہدے کئے ہوئے ہیں، کک بیک لئے ہوں گے تب ہی تو یہ معاہدہ ہوئے ہوں گے، اور یہ غلط وقت پر اس کی خریداری اور بڈنگ کی بات کرتے ہیں، ان کی نااہلی کا عذاب پوری قوم بھگت رہی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ حکومت جلد اقدامات کرے ورنہ دھرنے کا دائرہ بڑھے گا، دوسرے مرحلے میں ہم شاہراہوں پر بیٹھیں گے، ہم ملک میں امن و امان کو ختم نہیں کرنا چاہتے، حکومت تصادم چاہتی ہے، اس سے گریز کرے ہم مطالبات منظور کروائے بغیر نہیں جائیں گے، ہمیں کوئی جلدی نہیں، مگر حکومت تصادم کا راستہ لینے پر مجبور کرتی ہے، کراچی میں کل سے گورنر ہاس کے باہر دھرنا شروع ہونے جارہا ہے ، پشاور کے وزیر اعلی یا گورنر ہاس کے باہز بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں ، ہمارا دھرنا ملک بھر میں پھیلایا جائے گا۔
امیرجماعت اسلامی نے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ہمارے دھرنے کی تعریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں، تحریک تحفظ آئین پاکستان سے رابطہ اور ملاقاتیں ہیں، وہ یہاں تشریف لائیں ان کو ویلکم کریں گے، ہمارا اصولی مقف ہے کسی اتحاد میں شامل نہیں ہونگے، لیکن تحریک تحفظ آئین نئے الیکشن کی بات کرکے اپنے فارم 45 والے موقف سے دستبرداری ہورہی ہے، جو اتنے کنفیوز ہیں انہیں کیا کہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اعلان کریں کوئی وزیر اور سرکاری آفیسر 1300 سی سی سے زائد گاڑی استعمال نہیں کریں گے، بڑی گاڑیوں کی بندش سے 1350 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، اس پر وزیراعظم کام کیوں نہیں کر سکتے ، وزیر اعظم 13 سو سی سی گاڑی میں اپنی سیٹ ایڈجسٹ کرالیں، ایک ایک لیٹر کی قیمت عوام بھگت رہے ہیں، لیکن حکمران قوم کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار نہیں ہے، عوام بلز اور ٹیکسوں کی صورت میں ان کی عیاشیوں کے پیسے ادا کرتے ہیں۔