اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی ا ے محسن بٹ اوردیگر کے خلاف ڈاکٹر سید اقبال رضا کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواستیں نمٹادیں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ کی روشنی میںمزید کاروائی کے لئے درخواست گزار متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کے معاملے پر ڈاکٹر سید اقبال رضا کی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ اوردیگر کے خلاف توہین عدالت کے معاملے پردائر دودرخواستوں پر سپریم کورٹ کے کمرہ عدلت نمبر 1میں سماعت کی۔ درخواست گزارذاتی حیثیت میں پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس اورایف آئی اے حکام پیش ہوئے۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ توہین عدالت ہوئی ہے کہ نہیں۔ اس پر ملک جاوید اقبال وینس کاکہناتھاکہ توہین عدالت نہیں ہوئی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ عدالتی حکم پر درخواست گزار کو سماعت دی ہے، 20جنوری 2023کو سماعت مکمل کر لی تھی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر انہیں کوئی شکایت ہے تووہ اس کو چیلنج کریں۔ درخواست گزار کاکہنا تھا کہ یہ انکوائری بھی توہین عدالت کے ضمرے میں آتی ہے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ ایف آئی اے نے معاملہ بند کردیا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ درخواست گزار توہین عدالت میں آئے ہیں، ہم کیس کے میرٹس نہیں دیکھ سکتے، ایف آئی اے نے فیصلہ کردیاہے ابھی متعلقہ عدالت جائیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ توہین عدالت میں ہم کیس کے میرٹس پر نہیں جائیں گے۔
درخواست گزارکاکہنا تھا کہ میں نے 25سوال پوچھے تھے تاہم ایک سوال کاجواب بھی نہیں دیا گیا۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ توہین عدالت نہیں بن رہی، ہم سے درخواستیں خارج نہ کروائیں ، درخواستیں واپس لے لیں اورمتعلقہ فورم سے رجوع کریں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہم لکھ دیتے ہیں کہ متعلقہ عدالت سے رجوع کریں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ یہ درخواست واپس لے کر متعلقہ عدالت سے رجوع کریں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاحکم لکواتے ہوئے کہنا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس نے بتایا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہوگیا ہے اورکوئی توہین عدالت نہیں ہوئی۔ جبکہ درخواست گزار نے کہا ہے کہ ایف آئی کی رپورٹ حقائق کے برعکس ہے، ان کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات بھی ایف آئی اے کی جانب سے قبول نہیں کی گئیں۔ عدالت حکم میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کے لئے توہین عدالت کی دونوں درخواستیں واپس لے لیں۔ عدالت نے درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر نمٹادیں۔