اسلام آباد(صباح نیوز) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اپنے وسائل کیلئے ٹیکس اکٹھا کر لیں تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر وزارت خزانہ کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے،یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا ۔
اسلام آباد میں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ایف بی آر ہیڈکوارٹر میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے معیشت کو مستحکم کرنا ہے، اس کے لیے مشکل سفر طے کرنا ضروری ہے، اس کے لیے ہمیں تحمل، برداشت اور قربانی کا مظاہرہ کرنا لازمی جز ہے، اس کے بغیر یہ سفر مکمل نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے ہوا، اس کے بعد ان کا بورڈ بیٹھے گا اور اس کی منظوری دے گا، اب ہماری ذمہ داری کا آغاز ہوا چاہتا ہے، ہمیں شبانہ روز محنت کرنا ہوگی، تب ہی یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، جس کے بعد ترقی اور خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے نظام میں کمزوریوں سے جان چھڑانا ہو گی، ایف بی آر کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے جس بھی سپورٹ کی ضرورت ہو گی ترجیحی بنیادوں پر کی جائے گی، آئی ایم ایف میں ڈیجیٹیلائزیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو یقینا اللہ کے فضل و کرم سے اجتماعی کاوشوں سے انشا اللہ پاکستان ایک عظیم، خوشحال اور قابل احترام ملک بنے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو قرضوں سے جان چھڑانی ہے، آئی ایم ایف کے اس پروگرام کو ہم نے آخری پروگرام تصور کرنا ہے، جو ٹیکس دیتے ہیں ان پر مزید ٹیکس عائد کریں گے تو یہ ان کے لیے جرمانہ ہوگا جو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں، جبکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے لیے پریمیم ہوگا۔
شہباز شریف نے کہا کہ جب تک یہ بات ہمارے دلوں اور دماغوں میں نہیں ہوگی تو بات نہیں بنے گی، آپ آسان کام لیں گے اور ٹیکس لگائیں گے کہ انہوں نے تو ریٹرن فائل کرنی ہی ہے کیونکہ یہ سرکاری ملازم ہے، یہ کہاں جائے گا، اس طرح کبھی ملک ترقی نہیں کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی ترقی و خوشحالی کے لیے اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ایف بی آر کو پوری حکمت عملی تبدیل کرنی ہے، اور آج دنیا میں جدید ترین جو ٹیکنالوجی ہے، ایف بی آر کے ہم پلہ باقی ملکوں میں جو ادارے ہیں، انہوں نے جو حکمت عملی بنائی ہے، اس کو آپ نے اپنانا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ اربوں، کھربوں روپے ایف بی آر اکٹھے کرتے ہیں اور چند ارب روپے کے لیے عالمی بینک یا دوسروں کے پاس چلے جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ قومیں اس طرح نہیں بنتیں۔