نیویارک(صباح نیوز) 2080 میں دنیا کی آبادی 8.2 بلین سے بڑھ کر 10.3 بلین تک پہنچنے کا امکان ہے۔گزشتہ روز آبادی کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی پر رپورٹ جاری کی گئی ۔اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے تخمینے کے مطابق 1950 میں مردم شماری کے وقت دنیا کی آبادی ڈھائی ارب تھی جس میں اب تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق آئندہ آنے والی دہائیوں میں دنیا کی آبادی میں 2 ارب سے زیادہ افراد کا اضافہ متوقع ہے جبکہ دنیا میں لوگوں کی کل تعداد 2080 کی دہائی میں عروج پر ہو گی۔دنیا کی آبادی 2080 کی دہائی میں 10.3 ارب کے قریب ہوگی اور پھر اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد یہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگے گی۔رپورٹ تیار کرنے والے اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن سربراہ جان ولموتھ کا کہنا ہے کہ موجودہ صدی میں دنیا کی آبادی کے عروج پر پہنچنے کا امکان تقریبا 80 فیصد زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان جس کی موجودہ آبادی 245 ملین سے زیادہ ہے، کو ان ممالک کے گروپ میں شامل کیا گیا ہے جن کی آبادی 2054 تک بڑھنے کا امکان ہے اور یہ تعداد ممکنہ طور پر صدی کے دوسرے نصف یا بعد میں عروج پر پہنچ جائے گی۔ گزشتہ روز عالمی یوم آبادی کے موقع پر اقوام متحدہ کی ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس 2024 کی رپورٹ کی موجود پیشنگوئیوں(پروجیکشنز )کے مطابق2092 میں پاکستان کی آبادی 404.68 ملین کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی 2048 میں انڈونیشیا سے زیادہ ہونے کا امکان ہے اور یہ 331.29 ملین تک پہنچ جائے گی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1998 اور 2017 کے درمیان پاکستان کی آبادی میں اضافے کی اوسط شرح 2.40 فیصد تھی۔ 220 ملین سے زیادہ کی آبادی کے لیے یہ ہر سال تقریبا 5.28 ملین افراد کا اضافہ ہے۔رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں فی 1000 افراد میں پیدائش کی 22 شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بہت کم خواتین ایسی ہیں جو کسی بھی قسم کے برتھ کنٹرول کا استعمال کرتی ہیں اور بڑھتی ہوئی آبادی پانی اور صفائی کے نظام پر بہت زیادہ دبا ڈال سکتی ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں اور صحت اور تعلیم کے نظام کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 1947 کے بعد سے جب پاکستان ایک خودمختار ریاست بنا، پاکستان کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا، خاص طور پر اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے خاندانوں اور کاروبار کو علاقے میں منتقل کرنے میں آسانی محسوس کرتے تھے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان کی شرح نمو تقریبا 2.1 فیصد زیادہ ہے۔ گروتھ ریٹ آف پاکستان رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ تقریبا 35 سالوں میں اگر یہ اضافہ جاری رہا تو پاکستان کی آبادی بالآخر 2001 کے مقابلے د گنی ہو جائے گی۔ پاکستان میں موجودہ شرح نمو 2 فیصد کے قریب ہے، لیکن 2050 تک یہ نصف رہ کر ایک فیصد سے بھی کم رہنے کی توقع ہے جس وقت اس کی آبادی 300 ملین کی حد کو عبور کرنے کی توقع ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2024 کے وسط تک عالمی آبادی تقریبا 8.2 بلین تک پہنچ گئی ہے اور آئندہ 60 سالوں میں اس میں مزید دو ارب اضافے کی توقع ہے، جو 2080 کی دہائی کے وسط میں تقریبا 10.3 بلین تک پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد یہ کم ہو کر تقریبا 10.2 بلین رہ جائے گی، جو ایک دہائی پہلے کی توقع سے 700 ملین کم ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کی جنسی اور تولیدی صحت کی ایجنسی (یو این ایف پی اے) نے کہا کہ عالمی آبادی میں تبدیلیاں غیر مساوی ہیں اور آبادیاتی منظرنامے تبدیل ہو رہے ہیں، کچھ جگہوں پر آبادی میں تیزی اور دیگر ممالک میں عمر میں اضافہ ہو رہا ہے جو آبادی کیقابل اعتماد اعداد و شمار کو پہلے سے زیادہ اہم بنا رہا ہے۔
ایجنسی نے مزید کہا کہ رپورٹ کو ان لوگوں تک پہنچنے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ عالمی یوم آبادی کے موقع پراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریش نے کہا کہ آبادی کی گنتی میں درستگی کے ساتھ ہر فرد کی گنتی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری امیر انسانی ٹیپسٹری صرف اس کے کمزور ترین دھاگے کی طرح مضبوط ہے۔ جب ڈیٹا اور دیگر سسٹمز ان لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں جو مارجن پر ہیں، وہ سب کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس طرح ہم سب کے لیے ترقی کو تیز کرتے ہیں۔ آبادی کے اس اعداد و شمار کا مزید باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے لیے 1951 سے اقوام متحدہ کے محکمہ اقتصادی اور سماجی امور ( ڈی ای ایس اےA) کے ذریعے شائع ہونے والے ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس (ڈبلیو پی پی ) کا 28 واں ایڈیشن، 1950 سے 2024 تک کے 237 ممالک کے لیے تازہ ترین آبادیاتی اعداد و شمار فراہم کرتا ہے اور اس کے تخمینے تک کا سال 2100ہیں۔ڈبلیو پی پی پائیدار ترقی کے اہداف کی نگرانی کے لیے بہت اہم ہے، جس کے ایک چوتھائی اشاریے اس کے ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں۔دنیا کی مجموعی شرح پیدائش کم ہو رہی ہے، خواتین کے ہاں اوسطا ایک بچہ 1990 کے آس پاس کے مقابلے میں کم ہے۔
تمام ممالک اور علاقوں میں سے نصف سے زیادہ ممالک میں فی عورت بچوں کی پیدائشوں کی اوسط تعداد 2.1 سے کم ہے جو ایک مستقل سائز کو برقرار رکھنے کے لیے آبادی کے لیے درکار سطح ہے۔ 2024 تک چین، جرمنی، جاپان اور روس سمیت 63 ممالک اور علاقوں میں آبادی کا حجم عروج پر ہے اور اس گروپ کی کل آبادی میں اگلے تیس سالوں میں 14 فیصد کمی کا امکان ہے۔ دنیا کی آبادی کی اوسط عمر بھی بڑھ رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق 2070 کی دہائی کے آخر تک 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد 18 سال سے کم عمر افراد کی تعداد سے تجاوز کر جائے گی۔ اس کی وجہ گزشتہ تین دہائیوں میں متوقع عمر میں مجموعی طور پر اضافہ اور اموات کی شرح میں کمی ہے۔ 2050 کی دہائی کے آخر تک عالمی سطح پر اموات میں سے نصف سے زیادہ 80 یا اس سے زیادہ کی عمر میں ہوں گی جو 1995 میں 17 فیصد سے کافی زیادہ ہے۔ اگرچہ آبادی کی سست ترقی یا کمی بنیادی طور پر زیادہ آمدنی والے ممالک میں ہو رہی ہے، آبادی میں تیزی سے اضافہ کم آمدنی والے اور کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہو گا،خاص طور پر انگولا، وسطی افریقی جمہوریہ، جمہوریہ کانگو، نائجر اور صومالیہ میں بہت تیزی سے آبادی میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان کی کل آبادی 2024 اور 2054 کے درمیان دوگنی ہو جائے گی۔
آبادی میں یہ اضافہ وسائل کی طلب میں اضافہ کرے گا، خاص طور پر سب صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیا میں معیار زندگی کے ساتھ ساتھ یہ ماحولیاتی اثرات کو مزید خراب کرے گا ۔بھارت، انڈونیشیا، نائیجیریا، پاکستان اور امریکا سمیت ممالک میں بھی 2054 تک آبادی میں اضافہ متوقع ہے اور ممکنہ طور پر صدی کے دوسرے نصف یا بعد میں عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ خواتین کی جنسی اور تولیدی صحت اور تولیدی حقوق پائیدار ترقی کی بنیاد ہیں،خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں قبل از وقت حمل ایک چیلنج ہے۔ڈبلیو پی پی کے اعداد و شمار کے مطابق نوجوانوں، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری اور ان ممالک میں پہلے بچے کی پیدائش اور شادی کی عمر میں اضافہ ،خواتین کی صحت، تعلیمی حصول اور لیبر فورس میں شرکت کے لیے مثبت نتائج کا حامل ہوگا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ کوششیں پائیدار ترقی کے حصول کے لیے درکار سرمایہ کاری کے پیمانے کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوں گی اور اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔