اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پٹو اری ہو گیا مالک پاکستا ن کا، کیا بات ہے،سوری ٹوسے، پٹواری نے سرکاری طور پر کہہ دیا ، پٹواری کو لے آئو وہ پیدا بھی نہیں ہوا ہوگا۔ ماں، ماں، ماں، چھ دفعہ اور ماں کہہ دیں ، ہرچیز زبانی چل رہی ہے۔ اتنی فائلیں ہیں ایک کاغذ نہیں دکھا رہے، والدہ نے دے دیا، ایک کاغذ نہیں دکھا رہے۔ کوئی معاونت نہیں کررہے، ہر چیز ہوا میں کررہے ہیں، وکیل کا کام فیس لینا اور کیس کرنا ہماراکام ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعرات کے روز فائنل کاز لسٹ میں شامل 7کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے روح الامین کی جانب سے طور خان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل اصل کاغذکاٹکڑا لگاتے ہی نہیں،کاغذ کا ٹکڑا ہے جو مرضی لکھ دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زمین کی ملکیت پہلے والی کے پاس ہو گی پھر خیبر پختونخوایاوفاقی حکومت کے پاس ہو گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک طرف کہہ رہے ہیں گفٹ ہے اوردوسری طرف کہہ رہے ہیں سیل ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چلیں رہنے ہی دیتے ہیں اس کو۔ چیف جسٹس کا فیصلہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ تین فیصلے درخواست گزارکے خلاف ہیں، 14مئی 1951کی سیل ڈیل ہے نہ کاپی اور نہ ہی اصل لگائی ہے ، ریکارڈکیپر کو بھی پیش نہیں کیا گیا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔
بینچ نے دلاور خان اوردیگر کی جانب مسعودخان اورکزئی اوردیگر کے خلاف مکان کی خریداری کے تنازعہ پر دائر8 درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسعود خان کادعویٰ کب ڈگری ہوا۔ اس پردرخواست گزار کے وکیل محمد اجمل کاکہنا تھاکہ 25جنوری 2018کو۔ مدعا علیہ کے وکیل سید رفاقت حسین شاہ کا کہنا تھا کہ مسعود خان 1975میں زمین کامالک بنا تھا، ماں نے اسے گفٹ کیا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ خریدار کاکیا قصور ہے پہلے بھائی کوآگے کردیں اگر ہار جائیں توپھر خودسامنے آجائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماں، ماں، ماں، چھ دفعہ اور ماں کہہ دیں ، ہرچیز زبانی چل رہی ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل مدعا علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شکر ہے میرا گھر نہیں دے دیا، پلیز شاہ صاحب! تقریر نہ کریں ریکارڈ دکھائیں، ختم ہوگیا کیس۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نوٹس کرنے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا سید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حضور والا! کاغذ تودکھادیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی کاغذ نہیں ۔چیف جسٹس کا سید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے ریکارڈ نہیںلگایا، انہوں نے ریکارڈنہیں لگایا، اورشدت سے کہیں ، آپ کیس جیت گئے، خریدار والدہ کے گھر کادروزاہ تو نہیں کھٹکھٹا ئے گا کہ آپ نے گفٹ تونہیں کیا ہوا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پٹواری ہو گیا مالک پاکستان کا، کیا بات ہے، سوری ٹوسے، پٹواری نے سرکاری طور پر کہہ دیا ، پٹواری کو لے آئو وہ پیدا بھی نہیں ہوا ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اتنی فائلیں ہیں ایک کاغذ نہیں دکھا رہے، والدہ نے دے دیا، ایک کاغذ نہیں دکھا رہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا والدہ حیات ہیں ،وہ کب فوت ہوگئیں، انہیں عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا گیا۔ سید رفاقت حسین شاہ کا کہناتھا کہ وہ 2004میں فوت ہوئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی معاونت نہیں کررہے، ہر چیز ہوا میں کررہے ہیں، وکیل کا کام فیس لینا اور کیس کرنا ہماراکام ہے۔ وکیل دلاورخان کا کہناتھا کہ 26اپریل2011کو مسعود الرحمان نے دعویٰ دائر کیا۔
چیف جسٹس کا سید رفاقت حسین شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ شاہ صاحب! اب آپ کو جرمانہ کردوں گا، بیٹھ جائیں، بیچ میں کمنٹس مار رہے ہیں، اوپر والے سے ڈریں،ہرچیز مذاق بن گئی ہے۔ دلاورخان کے وکیل محمد اجمل کا کہنا تھا کہ 25لاکھ روپے انہوں نے پہلے ادائیگی کردی تھی او رباقی 12لاکھ روپے عدالت میں جمع کروائے۔ چیف جسٹس کاسید رفاقت حسین شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ پاورآف اٹارنی پوچھ رہے ہیں اورآپ کہہ رہے ہیں بھائی تھا میرا، ماں تھی میری۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کو مزید دستاویزات جمع کروانے کے لئے ایک ماہ کاوقت دیتے ہوئے قراردیا کہ کیس کے حوالہ سے پہلی سماعت پر جاری عبوری حکمنامہ برقراررہے گا۔