سندھ حکومت قیام امن اورعوامی تحفظ میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ کل جماعتی کانفرنس

 کراچی(صباح نیوز) جماعت اسلامی سندھ کے تحت صوبہ میں بڑھتی ہوئی بدامنی اورڈاکوراج کے خاتمے کے لیے قباء آڈیٹوریم کراچی میں مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ کی زیرصدارت منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں شریک تمام سیاسی سماجی ودینی رہنماوں سمیت علماء مشائخ، صحافی ،اقلیتی وسول سوسائٹی کے نمائندے اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ حکومت سندھ میں قیام امن اورشہریوں کی جان ومال کی حفاظت میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی،ڈاکو راج اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے ہر شہری پریشان اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔اغوابرائے تاوان صوبہ میں ایک منافعہ بخش کاروبار کی شکل اختیا کرچکا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت کراچی تا کشمور پورا صوبہ ڈاکووں کے حوالے کردیا گیا ہے، اس وقت سندھ کا کوئی بھی شہر ایسا نہیں بچا جہاں شہریوں کا اغوا،ڈاکہ زنی اور قتل وغارتگری کی وارداتیں نہ ہورہی ہوں اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ موٹرویزبھی ڈاکوئوں سے محفوظ نہیں ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا یہ کہنا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکوئوں کے پاس جدید اسلحہ کیسے پہنچتا ہے مضحکہ خیز اورناکامی کا اعتراف ہے کیونکہ سندھ پر16سالسے پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہے اورخود مرادعلی شاہ صاحب تیسری مرتبہ پی پی کے وزیراعلیٰ منتخب کئے گئے ہیں۔گزشتہ دنوں جیکب آباد میں صوبائی مشیرکی پولیس اسکواڈ کی گاڑی میں اسلحہ اسمگلنگ کا واقعہ بھی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صوبائی دارالحکومت شہرکراچی میں صرف چند ماہ میں دوران ڈکیتی مذاحمت پر70سے زایدافراد کوقتل کیاجاچکا ہے، اس سنگین صورتحال کے باوجود سندھ کے حکمرانوں کا ”سب کچھ ٹھیک ہے” کے دعوے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ گذشتہ دنوں ضلع کشمور کے صدرمقام کندھ کوٹ میں ڈاکووں کا پولیس چوکی پر حملہ کرکے ایک اہلکار کو اغوا اور پنوعاقل میں تاجرکے گھر میں داخل ہوکر اہل خانہ کو یرغمال ولوٹ مار کے بعد معصوم بچے کو اغوا کرکے ساتھ لے جانے والے واقعات صوبہ میں امن وامان کی سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں مذکورہ واقعات اورروزانہ کی بنیاد پررہزنی کے ہونے والے واقعات میڈیا میں تفصیلات کے ساتھ آرہے ہیں،اسی طرح گھوٹکی کے صحافی نصراللہ گڈانی کا بیدردی سے قتل بھی حکومتی ناکامی ہے اب صحافی بھی غیرمحفوط ہیں ۔یہ صوبہ صحافیوں کے لیے بھی مقتل گاہ بن گیا ہے جان محمد مہر،عزیزمیمن،اجے لالوانی سمیت ایک درجن صحافیوں کو قتل گیا جاچکا ہے۔

پورا سندھ اورخاص طوربالائی سندھ کے اضلاع کشمور،گھوٹکی، شکارپور،جیکب آباد ،سکھربدامنی کا مرکز بنے ہوئے ہیں اس وقت بھی درجنوں لوگ ڈاکوئوں کے چنگل میں ہیں،پھرظلم یہ کہ اپنے پیاروں کوبازیاب کرنے کے لیے احتجاج کرنے والوں پر انسداددہشتگردی کے تحت مقدمات درج کئے جارہے ہیں،جوکہ سرسرظلم ہے۔امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے نہ صرف کاروبار اورتعلیم کا نظام تباہ بلکہ معمول کی زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔اس صورتحال سے تنگ آکر سندھ میں رہنے والے غیرمسلم کئی خاندان ملک چھوڑ کربھی چلے گئے ہیں پریا کماری کو ضلع سکھر کے سنگرارشہر سے 3سال قبل اغواکیا گیا،فضیلہ سرکی کو ٹھل ضلع جیکب آباد سے 8سال قبل آغواکیا گیا ان بچوں کے گھروں پرصف ماتم بچھا ہوا ہے مگربے حس حکمرانوں کو ترس نہیں آیا۔خیرپورکی فاطمہ فرڑو،جیکب آباد کی حسینہ کھوسہ اورشہدادکوٹ کی نازیہ چنا سمیت کئی معصوم بچیوں کو درندگی کانشانہ بنانے کے بعدقتل کردیا گیا ورثاء آج تک انصاف کو ترس رہے ہیں۔ناظم جوکھیو اورام رباب کا کیس بھی عوام کے سامنے ہے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ واقعات مقامی ظالم وڈیروں وانتظامی سرپرستی کے بغیرناممکن ہیں۔

جب تک ظالم وڈیرہ راج اور پولیس میں کالی بھیڑوں کیخلاف آپریشن نہیں ہوگا تب تک سندھ میں ڈاکوراج کا خاتمہ اور امن امان ممکن نہیں ہے، امن امان کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سندھ کے باسی امن کیلئے ترس رہے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کیلئے مو ثر اقدمات اٹھائے تاکہ لوگ سکھ کا سانس لے سکیں۔ اے پی سی نے بدامنی  کے خلاف 2 جون کو سندھ بھرکے ضلعی ہیڈکوارٹرزمیں احتجاجی  مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ  آج کا یہ نمائندہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ صوبہ میں قیام امن اورڈاکوراج کے خاتمے کے لیے جرائم پیشہ افراد اوران کی سرپرستی کرنے والے مقامی بااثرافرادکے خلاف بھرپور اورنتیجہ خیزآپریشن کیاجائے۔٭پولیس کو غیرسیاسی بنایا جائے اوروڈیروں پرچی کی بجائے میرٹ ،قابلیت اور اچھی شہریت کے حامل پولیس افسران کا تقرر کیاجائے۔٭قبائلی تصادم بھی بدامنی میں اضافے کاسبب بن رہے ہیں پروفیسر اجمل ساوند سمیت کئی افراد اس کی بھینٹ چڑھے ہیں اس ناسورکے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات ،مغویوں کی بازیابی اوراس میں ملوث قوتوں کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔#