ن لیگ کے کسی شخص کیخلاف کوئی کرپشن کا کیس نہیں،شاہدخاقان عباسی


اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے کسی ایک شخص کے خلاف کوئی کرپشن کا کیس نہیں ، ہم نے پانچ سال حکومت کی ہے، کوئی ایک کرپشن کا کیس نہیں ۔میرا کھلا چیلنج ہے ٹی وی کیمرے لگا کر ہم سے تفتیش کریں اور عوام کودکھائیں، کدھر ہے کرپشن۔ میاں محمد نواز شریف عدالت کی اجازت سے علاج کروانے بیرون ملک گئے، یہ ان کا اورعدالت کا معاملہ ہے اوراس میں نہ عمران خان کچھ کرسکتا ہے اورنہ شہزاداکبر کچھ کرسکتا ہے۔ نوازشریف کا لندن میں علاج ہورہا ہے اور وہاں پر کورونا ہے ،نواز شریف کا علاج مکمل ہو گا توواپس آجائیں گے۔میں1993سے سن رہا ہوں نوازشریف کی سیاست ختم ہو گئی  ، یہ مائنس ون سیاست ہے ہماری، وہ مائنس ون والے بھی ختم ہو گئے، سیاست سے مائنس کرنا عوام کا کام ہے۔

ان خیالات کااظہار شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگے 43سال ہو گئے ہیں،آج انہیںپھانسی لگانے والے بھی ختم ہو گئے اوران کا نام لینے والا کوئی نہیں تاہم ذوالفقار علی بھٹو کا نام آج بھی زندہ ہے، میں ان کی سیاست کو پسند کروں یا نہ کروں لیکن آج بھی ووٹ ذوالفقار علی بھٹوکے نام پر پڑتا ہے اوراس کی سوچ پر پڑتا ہے، یہ صرف عوام ہیں جو آپ کو سیاست سے الگ کرسکتے ہیں۔فواد چوہدری پوری زندگی کوشش کرلیں وہ ایک حلقے سے باہر نہیں نکل سکتے اوروہ بھی ان کو جتوانا پڑتا ہے،آج جب مریم نواز شریف کسی جگہ جاتی ہیں تو چند گھنٹوں کے نوٹس پر 20،25ہزار کا مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے ، یہ قدرت کے کام ہیں کہ کس کے لئے عزت لوگوںکے دلوں میں ڈال دیتا ہے اورلوگ ان کے ساتھ اپنے جذبات اور وابستگیاں پیدا کرلیتے ہیں تو یہ معاملہ چلتا ہے۔ نیا چیئرمین نیب آئے یا موجودہ چلے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ نیب کا ادارہ ختم ہو چکا ہے، چیئرمین نیب کی تعیناتی سے صدر مملکت کا کوئی تعلق نہیں، چیئرمین نیب وزیراعظم اور اپوزیشن نے مشاورت کے ساتھ تعینات کرنا ہے۔ صدر صاحب نے اگر حکومت سے نام مانگے ہیں تو پہلے حکومت کے چیئرمین نیب کے لئے نام آنے دیں پھر اپوزیشن بھی دے، دے گی، یکطرفہ نام دینے سے مقصد حل نہیںہوتا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سیاست کو دشمنی میں مت بدلیں،آج اگر آپ ٹی ٹی پی سے بات کرسکتے ہیں لیکن آپ دوسری سیاست جماعتوں سے بات چیت نہیں کرسکتے،جب آپ کی یہ سوچ ہو گی توآپ کچھ نہیں کر پائیں گے،یہ زندگی کی حقیقت ہے۔ نہاد مشیر احتساب کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی وجہ سے ہی نکالا گیا کیوں کہ ان کو پتا تھا کہ یہ فیصلہ آرہا ہے۔ شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ نکالا ، اس کو استعمال کیا اوراس کی بنیاد پر کیس بنانے کی کوشش کی ، اس کی بنیاد پر ریفرنس بنانے کی کوشش کی۔ جس وزیر اعظم کے بارے میں سپریم کورٹ کا واضح حکم آجائے کہ تم نے اپنے وزراء کو قانون  توڑنے کا حکم دیا، تو یہ بہت بڑا جرم ہے۔ حکومت کہے گی شہزاد اکبر غلط کام کررہا تھا ہم نے اسے نکالا ہے۔ احتساب کا مشیربنانا ہی غیر قانونی کام ہے، احتساب کا اختیار ملک کے وزیر اعظم کو نہیںہے۔ نئے مشیر احتساب میرے ساتھ کے گائوں کے ہیں۔ مشیر احتساب کا عہدہ غیر قانونی ہے، مشیر داخلہ بنایا جاسکتا ہے۔ آج ملک میں عمران خان کی کرپٹ ترین حکومت چل رہی ہے، یہ ہم نہیںکہہ رہے بلکہ پوری دنیا کہہ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پورے پاکستان کے لئے بڑی سوچ کا وقت ہے کہ ہمارے اپنے گھر کے اندر ہمارے جوان شہید ہورہے ہیں اور یہ معاملات کیوں ہورہے ہیں، بنیادی طور پر جب آپ کا گھر کمزور ہو گا تواس کا فائدہ آپ کے دشمن اٹھائیں گے اوریہی کیفیت آج بلوچستان کے اندر ہے، بلوچستان میںجو سیاسی معاملات ہیں وہ عوام کی رائے کے مطابق نہیں ہیں،جو حکومتیں وہاں پربنتی ہیں اور جو ابھی بنی ہے وہ وہاںکے عوام کی نمائندگی نہیں کرتیں اور وہاں ہمارے دشمن موجود ہیں اوروہ اس چیز کا فائدہ اٹھاتے ہیں، وہاں جو عناصر اس نظام سے نالاں ہیں اور وہ اس نظام کا حصہ نہیں بنتے اور باہر نکل جاتے ہیں ان کو استعمال کرکے یہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ صرف سکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق ملکی سیاست ہے جب ملکی سیاست عوام کی نمائندگی نہیں کررہی ہو گی تو یہ چیزیں پیدا ہوں گی۔بلوچستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ اتنا ہی پیارکرتے ہیں جتنا پیار ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ کرتے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے، ہمارے 24جوانوں کو شہید کیا گیا اوراس کے بعد اے پی ایس کا واقعہ ہوا اوراس کے بعد ایک جنگ لڑی گئی ، ٹی ٹی پی کو موقع دیا گیا کہ وہ مذاکرات کے ذریعہ معاملہ کو حل کریں تاہم انہوں نے نہیں کیا ، ایک جنگ لڑی گئی اور ان کو تباہ کیا گیا اوران کو ملک سے باہر دھکیل دیا گیا۔ اب اگر ہم نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنا ہیں تو پھر اس کے اندر عوام کی رائے کا شامل ہونا ضروری ہے، ہم نے یہی کہا کہ جو یہ معاملہ ہے اس کو پارلیمنٹ میں لے کرآئیں اورپارلیمنٹ میں بحث ہو اورفیصلہ پارلیمنٹ کرے اورپوری سیاسی قوت اس فیصلے کے پیچھے ہو، اگر مذاکرات نہیں کرنے تو پھر جو بھی پاکستان پر اور ہمارے لوگوں پر حملہ آور ہو گا تو پھر ہم پر فرض بنتا ہے کہ اس کا مقابلہ کریں۔ افغان طالبان اس وقت افغانستان میں حکومت کے اندر ہیں اور انہوں نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ ہماری زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی ، اگر ٹی ٹی پی وہاں سے آپریٹ کرتی ہے تو یہ افغان طالبان کی ذمہ داری بھی ہے اورانہوں نے یقین بھی دلایا ہے کہ ہم کارروائی کریں گے۔ پاکستان کو طالبان سے بات کرنی چاہئے کہ اگرآپ کی زمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو آپ کیا کارروائی کریں گے۔ ہم نے افغانستان کے ساتھ ایک ہمسایہ ملک کے تعلقات رکھنے وہ ایک آزاد اورخودمختار ملک ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جو آپ کاٹیکس کا ریکارڈ ہوتاہے یہ قانونی طور پر آپ کسی کے حوالے نہیں کرتے اور عوام کے سامنے پیش نہیںکرتے ، نام نہاد مشیر احتساب کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی وجہ سے ہی نکالا گیا کیوں کہ ان کو پتا تھا کہ یہ فیصلہ آرہا ہے۔ شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ نکالا ، اس کو استعمال کیا اوراس کی بنیاد پر کیس بنانے کی کوشش کی ، اس کی بنیاد پر ریفرنس بنانے کی کوشش کی۔ اس فیصلہ میںوزیر قانون کا نام بھی آرہا ہے اوریہ دونوں کام نہیں کرسکتے اوران کو وزیر اعظم نے حکم دیا ، وزیروں کا کوئی اختیار نہیں ہوتا کہ معاملات خود کرسکیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کا وزیر اعظم قانون توڑنے میں ملوث ہے، یہ فیصلہ کہہ رہا ہے، وزیر اعظم آج قابل تعزیر ہیں۔ کسی جمہوری ملک میں یہ ہوتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کوئی بات لکھ دے تو پھر وزیر اعظم استعفیٰ دے گا

۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ایف بی آر کسی کمپنی کو دو ارب روپے ٹیکس کا نوٹس جاری کرتی ہے وہ کمپنی عدالت چلی جاتی ہے کہ ہم نے تو ارب کا کام نہیں کیا دو ارب ٹیکس کس چیز کا دیں ، ایف بی آر عدالت میں دو ارب سے دو کروڑ روپے پر آجاتا ہے ، کمپنی کہتی ہے کہ دو کروڑ بھی بنتا الٹا آپ نے ہمارے پیسے دینے ہیں اور حکومت عدالت میں پیش نہیں ہوتی، یہ تماشے بڑے عرصہ کے چل رہے ہیں۔