سقراط ہو یا گلیلیو،نپولین ہو یا ذوالفقار علی بھٹو، سب کے ساتھ ناانصافی ہوئی اور آج کی تاریخ میں بھٹو سب سے آخری ہیں جن کے بارے میں ریاست اور عدالت عظمی نے ناانصافی کو تسلیم کیا ہے ۔ سقراط کو جیوری نے نوجوانوں کو گمراہ کرنے پر زہر کا پیالہ پینے کی سزا دی، سقراط کے پاس موقع تھا کہ وہ پڑوسی شہری ریاست فرار ہوجائے مگر اس نے جھوٹے نظام انصاف کی غلط سزا کوبھی قبول کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو علم تھا کہ جسٹس انوار الحق، مولوی مشتاق اور نسیم حسن شاہ اسے انصاف نہیں دیں گے مگر وہ انہیں می لارڈ کہہ کر مخاطب کرتا رہا، وہ آئین کی لاج رکھتے ہوئے پھانسی پر جھول گیا۔ نپولین بونا پارٹ نے فرانس کا جھنڈا لہرانے کے لئے جان لڑا دی، واٹرلو میں شکست کھائی اور بالآخر سینٹ ہیلینا کے مقام پر 1821 برطانیہ کی اسیری کے دوران جان دے دی۔ انگریزوں نے اسے وہیں دفنا دیا مگر فرانسیسی حب الوطنوں نے صرف 19سال بعد یعنی 1840 کو نپولین کی باقیات کو اعزاز کے ساتھ پیرس میں لاکر دفنایا۔ اب نپولین کا ایفل ٹاور کے سامنے دریائے سین کے پاس شاندار مقبرہ ہے ۔ ہم آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی باقیات آج تک رنگون سے نہیں لا سکے۔ چلو ذوالفقار علی بھٹو کی غلط سزائے موت کی تو عدالتی گواہی آگئی تاریخ تو پہلے ہی گواہی دے چکی تھی۔ عدالت نے بھی فیصلہ کردیااب ریاست بھی اس غلطی کو مان لے اور نصف صدی گزرنے کے بعد بھی اپنی لغزشوں اور مظالم کو تسلیم کرکے معافی مانگے۔ عدالت عظمی نے ناانصافی کے مرتکب می لارڈز کو کوئی علامتی سزانہیں دی، سزا دیئے بغیر مداوا ممکن نہیں، اگر ان ججوں کی لاشیں لٹکائی نہیں جا سکتیں تو کم از کم ان کی تصویریں ہی عدالت عظمی کی دیوار سے ہٹا دی جائیں۔
میں گورنمنٹ کالج سرگودھاکا طالب علم تھا اس دوران 1977 کی انتخابی مہم چل رہی تھی مجھے بھٹو صاحب کا انتخابی جلسہ سننے کا بھی اتفاق ہوا۔ سٹیج پر صرف ایک ہی کرسی تھی جس پر بھٹو صاحب موجود تھے۔ وزیر اعلی اور باقی وزیر سارا عرصہ کھڑے رہے ارکان اسمبلی سٹیج پر نہیں بلکہ عوام کے درمیان بیٹھے تھے۔ اسی دوران قومی اتحاد کے جلسے بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میں شروع سے ہی اپوزیشن کو پسند کرتا ہوں اس لئے قومی اتحاد کا حامی بن گیا، اسی دوران مارشل لا لگ گیا،بھٹو کا ٹرائل شروع ہوا تو میں بڑی دلچسپی سے ہر روز ٹرائل کی خبریں اخبار میں پڑھتا تھا، بھٹو ٹرائل کے دوران ہی میری ماہیت قلب تبدیل ہونی شروع ہوگئی اور احساس ہونے لگا کہ بھٹو کے ساتھ سراسر زیادتی ہو رہی ہے۔ عدلیہ اور فوج مل کر بھٹو سے انتقام لے رہے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن، میرا پختہ نظریہ رہا ہے کہ جب تک بھٹو کی غلط پھانسی کا مداوا نہیں ہوتا پاکستان کی جمہوریت اور سیاست آگے نہیں چل سکتی۔ بھٹو کی پھانسی دراصل پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہونے والے پہلے وزیراعظم کی موت نہیں تھی اس میں یہ اعلان بھی تھا کہ عوام کی طاقت یا مقبولیت کی کوئی اہمیت نہیں، اصل بات مقتدر طاقتوں کی قبولیت اور پسندیدگی کی ہے۔ انگریزی کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار ولیم شکسپیئر کے شاہکار المیے میکبتھ میں لیڈی میکبتھ کا کردار بہت دلچسپ ہے لیڈی میکبتھ بادشاہ کو قتل کرنے کے منصوبے میں پوری طرح شامل ہوتی ہے تاکہ اس کا شوہر بادشاہ اور وہ خود ملکہ بن سکے مگر قتل کے بعد احساس جرم اس کی شخصیت کے ساتھ چپک جاتا ہے، وہ بار بار ہاتھ دھوتی ہے کہ شاید بادشاہ کا خون اس کے ہاتھوں سے اتر جائے مگر کم از کم خیالوں کی حد تک وہ نہیں اترتا اور وہ کہتی ہے کہ عرب کی خوشبوئیں بھی میرے ہاتھ صاف نہیں کرسکتیں۔
“ALL THE PERFUMES OF ARABIA WILL NOT SWEETEN THIS LITTLE HAND”
لیڈی میکبتھ کی طرح ہمارے نظام کے ہاتھ بھی بھٹو کے خون سے رنگے ہوئے ہیں یہی احساس جرم ہے کہ پیپلز پارٹی کو ناپسند کرنے کے باوجود پچھلے 15سال سے سندھ میں اقتدار دینا پڑا ہے۔بے نظیر بھٹو کو دوبار اقتدار میں لائے اور اب زرداری صاحب کو بھی دوسری بار لانا پڑا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ نظام اپنی غلطی کو درست کرنے کو تیار نہیں البتہ یہ چاہتا ہے کہ اس غلطی کا کوئی ردعمل نہ ہوبے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد بھی ردعمل کو روکنے کے لئے اقتدار دیاگیا حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست عوام کی طاقت ووٹ کی اہمیت اور پارلیمان کی برتری کو مانے ۔
مغربی دنیا اور مسلم دنیا میں نمایاں فرق یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں جبکہ مسلم دنیا میں وہی غلطیاں بار بار دہرائی جاتی ہیں ہماری ریاست نے بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے جنرل ضیاالحق نے خود اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بغیر سوچے سمجھے رخصت کر دیا۔
جنرل ضیاالحق کے بعد آنے والوں نے بھی کسی منتخب حکومت کو ٹکنے نہیں دیا بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان سب کی بار بار چھٹی کرائی گئی، کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم یہ طے کرلیں کہ پاکستان میں جمہوری استحکام کے لئے منتخب حکومتوں کا چلنا بہت ضروری ہے ۔
عدالتوں نے بھٹو کی پھانسی کو ناانصافی قرار دیکر اچھا فیصلہ کیا، چلو تقریبا نصف صدی بعد ہی کچھ تو ہوا مگر سوال یہ ہے کہ آج جو ناانصافیاں ہو رہی ہیں ان کا مداوا کون کرے گا اگر عمران خان سے بھی بھٹو کی طرح انتقام لئے جانے کا سلسلہ جاری رہا تو یاد رکھیے جس طرح بھٹو کی روح نے سالوں پاکستانی سیاست پر حکمرانی کی ہے عمران کا بھوت بھی پاکستان کی سیاست کا لازمہ بن جائیگا۔الیکشن ہو چکے اب معاملات کو نارمل کیا جائے، عمران خان کو قید سے نکال کر نظربند کیا جائے اور اس سے مذاکرات کئے جائیں، قومی اسمبلی میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے آل پارٹیز کمیٹی بنائی جائے جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہوں تاکہ حکومت کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کا اعتماد بھی بحال ہو سکے۔
نئی حکومت معیشت کو سنوارنے میں سنجیدہ لگ رہی ہے مگر جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ شہباز شریف، آصف زرداری اور نواز شریف سیاست میں پہل کریں۔بے نظیر بھٹو کی طرح مفاہمت کا عمل شروع کریں، عمران خان کو بھی ہر صورت اس عمل میں شریک کیا جائے تاکہ لوگوں کی ملک سے امید جوان ہو وگرنہ مایوسی میں نہ کاروبار ہو گا اور نہ سیاست ،سب نگاہیں سیاست دانوں پر ہیں کہ وہ کیا قدم اٹھاتے ہیں جس سے ملک میں مثبت تبدیلی کا آغاز ہو
بشکریہ روزنامہ جنگ