پیر صاحب اپنی کرامت کا ذکر کر رہے تھے کہ میں صحرا میں جا رہا تھا، چلتے چلتے دو دن گزر گئے تھے۔ بھوک لگتی تو ہاتھ بڑھا کر اڑتا ہوا کوئی پرندہ پکڑ لیتا اور سورج کی روشنی پر بھون کر کھاتا۔ خدا کا شکر ادا کر کے آگے چل پڑتا۔ تیسرے دن مجھے نماز کا خیال آیا تو پانی ختم ہو چکا تھا۔ میں نے ایک جھاڑی دیکھی اس کے پاس جا کر زمین سے مٹھی بھر ریت اٹھائی تو اس کے نیچے سے پانی کا چشمہ نکل آیا۔ میں پینے لگا تو خیال آیا کہ یہ جھاڑی پیاسی ہے پہلے اسے پانی پلائوں۔ چلو بھر پانی اس کی جڑ میں ڈالا تو وہ درخت بن گئی۔ اس کے سائے میں نماز ادا کرنے کا سوچا وضو کے لیے چلو میں پانی لیکر کلی کی تو جہاں جہاں پانی گرا گلاب کے پھول کھل گئے۔ چہرے پر پانی ڈالا تو پانی کے قطرے زمین پر گرنے کے بجائے ہر قطرہ ایک لال رنگ کا طوطا بن کر درخت کی ٹہنی پر بیٹھ گیا اور میرے مریدوں کے لیے دعا کرنے لگا۔ مرید جو جھوم جھوم کر سن رہے تھے ان میں سے ایک بولاپیر صاحب لال رنگ کا طوطا۔پیر صاحب نے غضب ناک انداز میں اس کی طرف دیکھا تو ساتھ بیٹھے بندے نے کہا چپ کر اوئے یہاں باقی کام بڑا سائنس کے اصول کے مطابق ہو رہا ہے جو تجھے سرخ رنگ کے طوطے پر شک ہے ’’یہ حکایت نما لطیفہ اس لیے یاد آ گیا کہ بعض حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کو اس لیے اب تک منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکی کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ سارا عمل آئینی و قانونی دائرے کے اندر ہی مکمل ہو جائے۔ اگر واقعی ایسا سوچا جارہا ہے تو یقینا یہ اچھی بات ہے لیکن ساتھ ہی یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کیا اس وقت سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہورہا ہے۔ خدیجہ شاہ کی رہائی کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ یہ خاتون نو مئی کو نہ صرف جتھوں کی قیادت کرتے ہوئے کورکمانڈر ہاؤس کو جلا کر راکھ کرنے کے عمل میں شامل رہی بلکہ اسے کامیابی کا اس قدر یقین تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے ٹویٹ بھی کر دی کہ جنرل عاصم منیر اب آرمی چیف نہیں رہے، فوج ان کے احکامات نہ مانے۔ اس سنگین واردات کی ناکامی کے بعد مفرور ہو گئی اور دھمکیاں دیتی رہی ’’کہ میں امریکی شہری ہوں اور اپنے سفیر کے ساتھ رابطے میں ہوں‘‘ خدیجہ شاہ کے نانا جنرل آصف نواز مرحوم آرمی چیف رہے ان کی وفات دوران ملازمت ہی ہوئی، مرحوم کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ امریکہ نواز جنرل ہیں۔ ان کی اگلی نسل نے ثابت کر کے دکھا دیا کہ وہ نہ صرف امریکہ نواز ہیں بلکہ امریکہ کی شہریت کے نشے میں چور بھی ہیں۔ گرفتاری کے بعد خدیجہ شاہ کو چھڑانے کے لیے کئی لابیاں حرکت میں آئیں۔ ان کے والد سلمان شاہ وزیر خزانہ رہ چکے یعنی آئی ایم ایف کے نمائندہ، ویسے بھی یہ فیملی سپر ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہے، جن پر کسی قسم کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔
دروغ برگردن راوی اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی موصوفہ کی رہائی کے لیے درخواست کی تھی۔ عسکری قیادت کو سراہا جانا چاہیے کہ کسی قسم کا کوئی دباؤ یا سفارش نہیں مانی گئی لیکن یہ بات حیرت انگیز ہے کہ آرمی چیف عاصم منیر کے دورہ امریکہ کے بعد ضمانت ہو گئی۔ ممکن ہے عدالتوں نے میرٹ پر ہی فیصلے کیے ہوں لیکن اس جرم کا 100 واں حصہ بھی کسی مہذب ملک میں کیا گیا ہوتا شاید باقی ماندہ تمام عمر کھلا آسمان آنکھوں سے دیکھنے کی حسرت میں ہی گزر جاتی۔ نو مئی کے مقدمات کو لٹکائے رکھنے کا معاملہ اب سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کی جانب سے شد و مد سے اٹھایا جانے لگا ہے … یہ پوچھا جا رہا کہ مکمل پلاننگ کے ساتھ ایک ہی روز میں 238 فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے اب تک ان کی سہولت کاری کیوں کی جا رہی ہے اور وہ کون سے ہاتھ ہیں جو مجرموں کے لیے حفاظتی حصار بنے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے محکمانہ طور پر چند روز بعد ہی بتا دیا گیا تھا کہ ماسٹر مائنڈ، سہولت کاروں اور حملہ آوروں کے متعلق ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ مجرموں کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ حیرت انگیز ہے کہ اب تک سوائے گرفتاریوں کے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ دوسری طرف عدلیہ اور میڈیا میں موجود ان عناصر کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے جو عمران خان کے موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے نو مئی کو الٹا سکیورٹی اداروں کی سازش قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہر طرح کا میڈیا ریکارڈ بھی موجود ہے کہ عمران خان نے حملوں کی ناکامی کے بعد کئی بار اعتراف جرم بھی کیا کہ مشتعل کارکن جی ایچ کیو اور فوجی تنصیبات پر نہ جاتے تو کہاں جاتے؟ عمران کو زعم تھا کہ بیرونی سرپرستی میں بندیال، فیض اوران کے معاونین کی مدد سے وہ جلد ہی اقتدار پر قبضہ کر کے سب کو الٹا لٹکا دیں گے۔ عمرانی دعوے تو حقیقت نہ بن سکے۔ اب وہ جیل میں ہر طرح کی سہولیات ملنے کے باوجود سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ کبھی وکلا پر برستے ہیں، کبھی الیکشن کمیشن کے ارکان پر آرٹیکل چھ لگانے کی دھمکیاں دیتے ہیں جو واضح طور پر شدید مایوسی اور جھنجھلاہٹ کی علامت ہے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ریاست مجرموں کو کیفر کردار تک پہچانے کے بجائے نو مئی کے واقعات کی ایسی ویڈیوز جاری کر رہی ہے جو پہلے سامنے نہیں آئی تھیں۔ اطلاعات ہیں کہ عسکری ادارہ برائے امراض قلب راولپنڈی پر حملے کی حال ہی میں جاری کردہ ویڈیو کے بعد کئی اور ویڈیوز بھی آئیں گی۔ عوام حیران ہیں کہ تمام تر شواہد کی موجودگی میں اب تک ویڈیو، ویڈیو ہی کیوں کھیلا جا رہا ہے۔ یہ کوئی پالیسی ہے تو بے حد افسوسناک ہے اور اگر دو عملی ہے تو بہت خطرناک۔ اس سے صرف عوام متنفر ہو نہیں رہے بلکہ اداروں کے بارے میں کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے۔ ملک دشمنوں کو مایوسی پھیلانے کا موقع مل رہا ہے۔ اسی دوران گولڈ سمتھ ہاؤس پاکستان مخالف بین الاقوامی عناصر کے ساتھ مل کر اکانومسٹ جیسے جریدے میں گھوسٹ آرٹیکل شائع کرا رہا ہے۔ ہماری نگران حکومت ہے کہ آج بھی تحقیقاتی کمیٹیاں بنانے پر لگی ہے۔ یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر واقعہ کے فوری بعد سازش کرنے والوں اور محرکات تک پہنچنے کی اطلاع قوم کو دے چکے ہیں اور نگران اب تحقیقات کرا رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رپورٹ آئی ایس پی آر کے ذریعے قوم سے شیئر کی جائیں گی۔ بظاہر یہ سب دائرے میں سفر ہی لگ رہا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ بلے کا نشان دینے یا لینے، کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کو ایک طرف رکھ کر افراتفری پیدا کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔ عمران نوازی میں عدلیہ کا جوڈیشل ازم اپنی جگہ آزادی اظہار کے نام پر چینلوں اور سوشل میڈیا پر ریٹنگ کے متلاشی اینکروں اور تجزیہ کاروں کی نام نہاد جرأت اظہار اپنی جگہ لیکن زمینی حقیقت یہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے چار سالہ ہائبرڈ دور حکومت کے سبب اسٹیبلشمنٹ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی ہے اور اس کا دائرہ اثر تمام شعبوں میں پھیل چکا ہے۔ انقلاب ناکام ہو جائے تو بغاوت کہلاتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ سرکوبی کرتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کون سا باغی کس حیثیت میں کہاں بیٹھا ہے۔ ریاست نے ذرا سی بھی ڈھیل دی تو ایک اور نو مئی ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی، باقی آپکی مرضی۔
بشکریہ:نئی بات