اکبر الہ آبادی کی شاعری میں بغاوت اور قدامت پسندی کے اجزا کو الگ الگ کرنا ایسا ہی دشوار ہے جیسا ہماری تاریخ میں آزادی کی جدوجہد اور قدیم بندوبست کے احیا میں فرق کرنا۔ 1857 ءکی جنگ قابض غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف بغاوت تھی یا مقامی باشندوں کے لئے حق حکمرانی کا حصول؟ اگر ہندوستان کے ساحلوں پر اترنے والے گورے اجنبی تھے تو وسط ایشیا سے نازل ہونے ہونے والے سلطان، مغل اور ابدالی حکمرانوں کا وادی سندھ اور گنگا جمنی تہذیب سے کیا ناتا تھا؟ اگر سراج الدین بہادر شاہ ظفر دہلی میں ’مسلمان بادشاہت‘ کا دفاع کر رہا تھا تو جھانسی (بنارس) سے اٹھنے والی لکشمی بائی اور اس کا مرہٹہ جرنیل تانتیا ٹوپے کس کیلئے لڑ رہے تھے؟ تاریخ کے بہت سے سوالات کا جواب گزرتے ہوئے حالات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ان دنوں امریکا کی انتخابی مہم میں 1860 کی دہائی میں ہونے والی خانہ جنگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسند حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا غلامی کے خاتمے کے لئے جنوبی امریکا کی زرعی اشرافیہ سے جنگ کرنا درست تھا؟ مقصد اس مباحثے کا یہ ہے کہ آمدہ نومبر کے انتخابات میں روایتی طور پر قدامت پسند سفید فام جنوب سے ووٹ بٹورے جا سکیں۔ ثابت ہوا کہ تاریخ دائروں میں سفر کرتی ہے۔ رواں صدی کے آغاز تک یہ خیال بھی محال تھا کہ امریکا کے بانی قائدین میں شمار ہونیوالے ابراہم لنکن کی سیاسی بصیرت پر انگلی اٹھائی جا سکے گی۔ لنکن کا ذکر ہوا تو برطانیہ کے وسط مشرقی شہر لنکن شائر کا خیال آیا جہاں 1846میں پیدا ہونے والے جیمز ڈاسن نامی ایک شخص نے 1865میں جوتوں کا کاروبار شروع کیا تھا۔ یہ وہی جیمز ڈاسن ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، پردے، پوری، کچوری، اونٹ اور گائے کے عاشق اکبر الہ آبادی نے لکھا تھا، ’بوٹ ڈاسن نے بنایا، میں نے اک مضموں لکھا۔ ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا‘۔ ان دنوں ہمارے ملک میں بھی ایک مضمون پر جوتا چل رہا ہے جو ہفت روزہ اکنامسٹ کے حالیہ شمارے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے زیر حراست ’بانی تحریک انصاف‘ نے اس مضمون کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن یہ واضح نہیں کر پائے کہ جیل میں انہوں نے یہ مضمون کب لکھا، کیسے ٹائپ کیا اور کیسے برطانوی جریدے تک پہنچایا؟ ادھر 5جنوری بروز جمعہ ایوان بالا کے چودہ ارکان کی ’بھاری اکثریت‘ نے ’آزاد رکن سینیٹ‘ دلاور خان کی پیش کردہ ایک قرارداد قواعد و ضوابط کو روندتے ہوئے منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 8فروری کو ہونیوالے انتخابات شدید سردی اور امن و امان کی صورت حل کے پیش نظر موخر کر دیئے جائیں۔ یہ قرار داد بھی عمران خان کے مضمون کی طرح ’بے نامی سودا کاری‘ کا نمونہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایوان میں موجود واحد رکن بہر مند تنگی اب کانوں پر ہاتھ رکھ رہے ہیں کہ انہوں نے اس قرارداد کی حمایت نہیں کی۔ مسلم لیگ کے رکن سینیٹ افنان اللہ واحد سینیٹر تھے جن کی مخالفت ریکارڈ پر آ سکی۔ البتہ یہ قضیہ صاف نہیں ہو سکا کہ 100ارکان میں سے صرف 14کی موجودگی پر کورم کی نشان دہی کیوں نہیں کی گئی؟
15 دسمبر 2023ءکی رات گہری ہو رہی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم فائز عیسیٰ نے انتخابات کے التوا کے خلاف آئینی درخواست پر اپنا حکم لکھوانا شروع کیا۔ یہ سماعت قومی نشریاتی ذرائع پر براہ راست نشر ہو رہی تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اس دوران تحریک انصاف کی حامی ایک خاتون وکیل نے مداخلت کی کوشش کی تھی جس پر معزز چیف جسٹس نے انہیں سرزنش کی تھی۔ عین اس وقت ملک کے ایک معروف صحافی کا فون بج اٹھا۔ ان کے کسی ’ذرائع‘ کا فون تھا۔ صحافی اپنے ’ذرائع‘ کا انکشاف نہیں کیا کرتے۔ تاہم انہوں نے اردگرد بیٹھے ساتھیوں کو صرف یہ بتایا کہ چیف جسٹس کے فیصلے کی سمت بھانپتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ تو 8 فروری کے انتخابات پر پہلا حملہ تھا۔ ابھی اس طرح کی مزید کوششیں کی جائیں گی۔ یہ سن کر شرکائے محفل کو اندازہ ہو گیا کہ انتخابات کے التوا میں کسے دلچسپی ہے۔ نگران حکومتیں اس معاملے میں یکسو ہیں۔ عدلیہ کا فیصلہ دو ٹوک ہے۔ ملک کی معیشت انتخابات کے دھاگے سے معلق ہے۔ انتخابی معرکے میں اترنے والی اہم سیاسی جماعتوں کا مفاد انتخابات کے بروقت انعقاد میں ہے البتہ کچھ زیر آب سمندری دھارے اور زیر زمین قوتیں ٹھیک اسی طرح 26اکتوبر 2024 ء کے انتظار میں ہیں جس طرح تحریک انصاف کے سربراہ 29نومبر 2022ءسے خائف تھے۔ کیا قیامت ہے کہ 25کروڑ عوام کے سیاسی اور معاشی مفادات کو مختلف عہدوں پر تقرری اور سبکدوشی کے کچے دھاگوں سے باندھا جا رہا ہے۔ عمران خان نے اپنے مضمون میں 9 مئی کے واقعات کو ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ قرار دیا ہے۔ شاید انہیں یاد نہیں کہ ان واقعات کے بعد بھی انہوں نے اپنی دوبارہ ممکنہ گرفتاری پر عدالت میں دوبارہ ایسے ہی ردعمل کی دھمکی دی تھی۔ گویا عمران خان اس فالس فلیگ آپریشن کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ مذکورہ مضمون میں عمران خان صاحب نے الیکشن کمیشن کی توہین کے مقدمے کو محض ’تنقید‘ کا ردعمل قرار دیا ہے۔ وہ بھول رہے ہیں کہ انہوں نے چند روز قبل الیکشن کمیشن کے ارکان کو نام اور چہرے پہچاننے کا دعویٰ کرتے ہوئے آرٹیکل چھ کے اطلاق کی دھمکی دی ہے۔ ایسی دھمکی محض ’تنقید‘ نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنی تاریخ مستحضر ہے۔ ہم نومبر 1968ءمیں فوج کے جج ایڈوکیٹ جنرل بریگیڈیئر قاضی کے کردار سے بھی واقف ہیں اور نومبر 1971ءمیں دورہ چین کے دوران جنرل گل حسن اور ایر مارشل رحیم کے گٹھ جوڑ کا فسانہ بھی ہمارے حافظے میں محفوظ ہے۔ پروجیکٹ عمران خان ناکام ہو چکا ہے۔ ملک کو مضحکہ خیز سازشوں کی بجائے ایک شفاف انتخابی عمل کے ذریعے سیاسی اور معاشی طور پر آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ