پاکستان بھر میں زیتون کی کاشت کے لیے سازگار ماحول اور جنگلی زیتون کے کروڑوں درختوں کا بے بہا خزانہ موجود ہے: ماہرین

اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان ایک دہائی کے اندر خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل بن سکتا ہے اگر پاکستان بھر میں زیتون کی کاشت  کے لیے سازگار ماحول اور کڑوڑوں جنگلی زیتون کے درختوں کے بے بہا  خزانے سے فائدہ اٹھایاجائے۔ اگر  اس صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے تو ملک میں زیتون کے تیل کی مقامی پیداوار سے خوردنی تیل کی درآمد پر سالانہ خرچ ہونے والی 4.5 بلین ڈالر کی خطیر رقم  بچانے میں مدد مل سکتی ہے اور زیتون کی برآمدات کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔

یہ گفتگوانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)  میں زیتون کی کاشت میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی  استعداد پر اظہارِ خیال  کے لیے منعقدہ ایک  مذاکرے کے دوران   کی گئی۔ آئی پی ایس کے جی ایم آپریشنز نوفل شاہ رخ کی نظامت میں منعقد ہونے والے اس  مذاکریمیں آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمن،  معروف سماجی رہنما اوردعا فاونڈیشن  کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر فیاض عالم ، سینیئرصحافی شبیر سومرو اور  جامعہ کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غفران سعید نے اظہارِ خیال کیا۔ ڈاکٹر فیاض عالم اور شبیر سومرو نے حال ہی میں  مشترکہ طور پر پاکستان میں زیتون کی کاشت کی تاریخ، حیثیت اور امکانات پر ایک کتاب بھی مرتب کی ہے۔ ‘پاکستان میں زیتون کی کاشت – تاریخ، تجربات، اور امکانات’ کے عنوان سے اپنی اس کاوش کا تعارف کرواتے ہوئے شبیر سومرو نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں تقریبا ساڑھے آٹھ کڑوڑ جنگلی زیتون کے درخت ہونے کے باوجود مقامی لوگ بھی اس کے بارے میں آگہی کی کمی وجہ سے ان سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ وسیع تحقیق،  ماہرین اور کاشتکاروں کیانٹرویوز، اور  کامیاب تجربات کی تفصیلات پر مبنی یہ کتاب آگہی کے اس خلا کو دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

انہوں نے زیتون کے بارے میں  ملک گیر آگہی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب قارئین کو پاکستان کے زیتون کے درختوں کے اندر چھپے بے پناہ امکانات اور فوائد سے روشناس کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈاکٹر فیاض عالم نے  بارانی علاقوں میں  زراعت کے  زریعے ترقی کے  امکانات پر زور دیا۔ انہوں نے اس طرح کے  اہم موضوعات میں میڈیا کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی ان زرعی سائنسدانوں اور باغبانوں کی خدمات کو  اجاگرکرنے اور خراج ِتحسین پیش کرنے میں ہچکچاہٹ پر افسوس کا اظہار کیا جنہوں نے زیتون کی قیمتی اقسام اور  درکارفوڈ پروسیسنگ ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا ہے۔

ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں خیبرپختونخوا،  پنجاب ، سندھ، اور بلوچستان  کے علاقوں میں کی جانے والی کوششوں سے 50,000 ایکڑ اراضی پر 5.6 ملین نئے زیتون کے درخت  لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے 20 لاکھ پودے پہلے ہی پھل دے رہے ہیں اور مقامی استعمال اور برآمد کے لیے کئی ٹن زیتون کا تیل پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کا تقریبا 75 فیصد خوردنی تیل درآمد کیا جاتا ہے اور اس پر ملک جو 4.5 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے اسے زیتون کی کاشت اور پیداوار کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے، جس سے پاکستان خوردنی تیل میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر غفران نے کہا کہ  جامعات اور تحقیقی اداروں میں محض ‘تحقیق برائے تحقیق’ کا رجحان،  اورصنعتی و تجارتی شعبیاور حکومت کے  ساتھ ہم آہنگی کا فقدان  افسوسناک ہے جو زیتون جیسے زرعی اثاثوں  سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ ہے۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے اس بات پر زور دیا کہ زیتون کی کاشت  کو فروغ دینا صرف زراعت سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ صحت اور قومی اقتصادی ضرورت بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی قوتوں اور کمزوریوں کا از سر نو تعین کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں انہوں نے تجویز دی کہ ملک میں زیتون کی کاشت میں کامیابی کی کہانیوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے، اور  مذہبی حلقوں اورمدارس جیسے کمیونٹی اداروں پر زور دیا جانا چاہیے کہ وہ ان امکانات پر کام کرنے والے  افرادکی حوصلہ افزائی کریں۔ انہوں نے ایک مقامی فریم ورک کی ضرورت پر زور دیا جو تحقیق، مقامی کوششوں اور سماجی اور اقتصادی محرکات کو منسلک کرتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوششیں نہ صرف زرعی ترقی کو جنم دیں گی بلکہ قومی سماجی و اقتصادی تانے بانے کی ایک مکمل تبدیلی کا باعث بھی بنیں گی۔