اسلام آباد(صباح نیوز)خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے بحالی کی خدمات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا دائرہ مختلف خصوصی افراد تک بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ وہ پاکستان میں بحالی کی خدمات کے فروغ کے لیے اسٹریٹجک ایکشن پلان کی تیاری کے حوالے سے اختتامی تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔ پانچ سالہ جامع ایکشن پلان وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن، صوبائی محکمہ صحت، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، اور ری لیب ایچ ایس کے اشتراک سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں بشمول آزاد وجموں کشمیر ، گلگت بلتستان کی سطح پر تیار کر رہا ہے۔بیگم علوی نے کہا کہ بحالی کی خدمات صحت کے شعبے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ان لوگوں کی مدد کرتی ہیں، جو بیماری، حادثے یا معذوری کا شکار ہو کر معمول کی زندگیوں میں لوٹ آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بحالی کی خدمات کا دائرہ صرف خصوصی افراد تک ہی محدود نہیں تھا، تاہم انہیں دائرے میں لایا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان خدمات میں معاون ٹیکنالوجی کی فراہمی، تقریر ، پیشہ ورانہ تھراپی اور پیشہ ورانہ بحالی پر توجہ دینا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ معذور افراد ملک کی آبادی کا 10 سے 12 فیصد ہیں اور اگر انہیں معاون ٹیکنالوجی، بحالی کی خدمات اور نقل و حرکت تک رسائی فراہم کی جائے تو وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے مختلف خصوصی افراد کو مرکزی دھارے میں لانے اور انہیں مساوی حقوق اور خدمات فراہم کرکے ان کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لیے معاشرے میں شعور بیدار کرنے پر زور دیا۔ بیگم ثمینہ علوی نے معذوری کو صحت عامہ کا عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو ہنر مندانہ تعلیم اور ملازمت کے مواقع کے ذریعے ایڈجسٹ کرنے کے لیے معاشرے کی طرف سے مثبت انداز فکر کی ضرورت ہے۔انہوں نے مختلف معذور افراد اور ان کے والدین کو وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ملازمتوں کے خصوصی کوٹے کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے ایک قومی مہم چلانے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر پر بھی زور دیا کہ وہ ایسے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے کا کارآمد رکن بن سکیں۔ڈبلیو ایچ او کے مشن کی سربراہ ڈاکٹر پالیتھا مہیپالا نے چھاتی کے کینسر اور معذور افراد کے حقوق کے بارے میں قومی بیداری مہم کی سربراہی کرنے پر خاتون اول کی تعریف کی۔ انہوں نے بحالی کی خدمات تک لوگوں کی رسائی کو بہتر بنانے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے انہیں صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ مزید پیچیدگیوں سے بچنے اور علاج کے بعد جلد صحت یاب ہونے کے لیے ہر فرد کو بحالی کی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ٹیکنیکل ایڈوائزر پالین کلینٹز نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ بحالی سے کام کو بہتر بنایا جاتا ہے اور لوگوں کو روزمرہ کی سرگرمیاں انجام دینے میں مدد ملتی ہے اس کے علاوہ معیار زندگی کو بھی بہتر بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اندازوں کے مطابق 2.4 بلین لوگ یا ایک تہائی لوگ ہیں جو بحالی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او بحالی کی خدمات کی دستیابی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری مشورے اور مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ پوری دنیا میں خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس موقع پر ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر بصیر اچکزئی، ری لیب ایچ ایس کے گلوبل کوآرڈینیٹر اور ڈاکٹر ضیا داوڑ نے بھی خطاب کیا۔ ڈبلیو ایچ او کے نمائندوں اور خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے صحت عامہ کے ماہرین نے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی۔۔