اسلام آباد(صباح نیوز) قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے فنانس ترمیمی بل کے مطابق 343 ارب روپے کا ٹیکس استثنی ختم کردیا جائے گا، ٹیکس وصولیوں کے اہداف 271 ارب روپے سے بڑھا کر 6100 ارب روپے تک کیے جائیں گے۔پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل)کا ہدف 600ارب روپے سے کم کرکے 356ارب روپے کیا جائے گا مگر حکومت کو یہ ہدف بھی پورا کرنے کیلئے لیوی بڑھا کر اسے 30روپے فی لیٹر تک کرنا ہوگا، جس کیلئے ہر ماہ چار روپے فی لیٹر کے حساب سے پی ڈی ایل بڑھائی جائے گی۔
بل میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی بڑھانے یا کم کرنے کا اختیار وزیر اعظم کو دینے کی تجویز ہے۔اس کے علاوہ ترقیاتی بجٹ میں 200ارب روپے کی کمی کرنا ہوگی۔ ترمیمی فنانس بل میں 343ارب روپے کے ٹیکس استثنی ختم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔جن اشیا پر سیلز ٹیکس چھوٹ زائد ہے اس پر سیلز ٹیکس ریٹ 17فیصد لاگو ہوگا۔ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کیلئے شیڈول 5، 6، 7، 8اور 9میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
موبائل فون، اسٹیشنری اور پیک فوڈ آئٹمزپر ٹیکس چھوٹ ختم کیے جا ئے گا۔برآمدات کے سوا زیرو ریٹنگ سے بھی سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لی جائے گی۔
موبائل فون کالز پر انکم ٹیکس ریٹ10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے سے مزید 7ارب حاصل ہونگے، شیرخوار بچوں کیلئے دودھ کی تیاری کیلئے استعمال ہونے والے درآمدی خام مال پر زیرو ریٹنگ ٹیکس واپس لیکر اس پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے گا جس سے ریونیو میں نو ارب روپے اضافہ ہوگا۔ اس مد میں ٹیکس آمدن کا تخمینہ 15 ارب لگایا گیا ہے۔شیرخوار بچوں کی اشیا کی مد میں بھی سیلزٹیکس لگایا گیا ہے اور اس سے بھی 6 ارب ریونیو حاصل ہوگا۔850سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اورلگژری گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کی تجویز ترمیمی بل کا حصہ ہے۔جبکہ درآمدی الیکٹرک گاڑیوں کے سی بی یوز پر ٹیکس5فیصد سے بڑھا کر17فیصد کر دیا جائے گا۔
بزنس ٹو بزنس ٹرانزیکشنز پر ٹیکس بھی 16.9فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کیا جائے گا۔ ادویات کے خام مال پر بھی17فیصد جی ایس ٹی لگایا جائے گا جس سے سب سے زیادہ45 ارب روپے حاصل ہوں گے۔30ارب روپے درآمدی مرحلے پر حاصل ہوں گے جبکہ 15ارب روپے لوکل سٹیج پر حاصل ہوں گے تاہم ایف بی آر کا کہنا ہے کہ خام مال زیرو ریٹڈ ہی رہے گا اور ان پر ری فنڈ دیا جائے گا۔ بریڈ تیار کرنے والی بیکریوں، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز اور دکانوں پر 17فیصد ٹیکس لگایا جائے گا جس سے5 ارب روپے حاصل ہوں گے تاہم روٹی، نان، چپاتی، شیرمال بنانے والے تندور بدستور مستثنی رہیں گے۔
میس میں تیار اور سرو کیے جانے والے کھانے، تیار شدہ کھانے او رمٹھائیاں تیار کرنے والے ہوٹلز، کیٹرررز، دکانوں، ریسٹورنٹس پر7.5فیصد سے بڑھا کر17فیصد کر دیا جائے گا جس سے ہوٹلنگ مہنگی ہوجائے گی۔درآمد شدہ سبزیوں پر 7ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
ریٹیل پیکیجنگ میں فروخت نہ ہونے والی سرخ مرچوں پر ٹیکس لگے گا۔ ملنگ انڈسٹری کیلئے اناج اور مصنوعات پر 5 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا اور چاول، گندم اور میدہ کے آٹے کی مقامی سپلائی مستثنی رہے گی۔ ماچس پر بھی17فیصد کے حساب سے ٹیکس لگے گا۔ڈیری پراڈکٹس، سوسیجز، مرغی کا گوشت اور اسکی دیگر مصنوعات جو کہ کسی برانڈ نام یا ٹریڈ مارک کے تحت ریٹیل پیکنگ میں فروخت ہوتی ہیں ان پر بھی 17فیصد ٹیکس عائدہوگا۔
برانڈ نام کے تحت خوردہ پیکنگ میں فروخت ہونے والے فلیورڈ دودھ، پر ٹیکس کی شرح دس فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دی جائے گی جس سے ایک ارب روپے ریونیو ملے گا۔ دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی، دودھ اور کریم پر بھی ٹیکس 10فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دیا جائے گا۔
ڈیری مصنوعات سے متعلق مشینری اور آلات پر 5فیصد کے بجائے اب 17فیصد ٹیکس لگے گا۔موبائل فونز پر مقررہ شرح کے مقابلے میں 17% کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ خوردہ دکانوں سے کی جانے والی سپلائیز جو کہ ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ مربوط ہیں جن پر فی الحال 10% ٹیکس عائد ہے اب 16% ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ منجمد تیار یا محفوظ ساسیجز پر ٹیکس کی شرح 8فیصد سے بڑھ کر 17فیصد ہو جائے گی غیر ملکی حکومت یا تنظیم کی جانب سے تحفہ یا عطیہ کے طور پر موصول ہونے والی اشیاپر 17فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
قدرتی آفت کی صورت میں موصول ہونے والی تمام اشیا کی درآمد پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ غیر منقولہ تحائف کے طور پر ڈاک کے ذریعے درآمد کیے گئے سامان پر 17فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔درآمد شدہ نمونے، مانع حمل ادویات اور لوازمات پر ٹیکس سے 200ملین روپے ملیں گے۔ سلائی مشینوں پر 17فیصد ٹیکس لگے گا۔
زندہ جانوروں اور زندہ مرغیوں کی درآمد پر17فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا اور اس سے 700ملین روپے کے محصول حاصل ہوں گے تاہم مقامی سپلائی اس سے مستثنی رہے گی۔کھیت کی تیاری کے آلات، بیج اور پودے لگانے، آبپاشی، نکاسی آب، اور زرعی کیمیکل کی تیاری، کٹائی، تھریشنگ کے آلات اور فصل کے بعد ہینڈلنگ کے آلات پر ٹیکس 5فیصد سے بڑھ کر 17فیصد ہو جائے گا۔
پولٹری سیکٹر کی مشینری پر جی ایس ٹی 7 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد، ملٹی میڈیا پراجیکٹس پر 10فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گا، لیتھیم آئرن بیٹری پر ٹیکس 12فیصد سے بڑھ کر 17فیصد ہو جائے گی۔چاندی اور سونے پر جی ایس ٹی 1فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد اور جیولری آرٹیکلز پر 17فیصد ہو جائے گا۔
توانائی کے قابل تجدید ذرائع جیسے سولر اور ونڈ، آبپاشی کے آلات پر بھی ٹیکس لگے گا۔
آئل سیڈز کی درآمد پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر دی جائے گی، کوئلے کی کان کنی سے متعلقہ BMR سسٹم کی مشینری اور آلات ، گیس پروسیسنگ پلانٹس اور آئل اینڈ گیس فیلڈ پراسپیکٹنگ، پلانٹ، مشینری، کانکنی کے آلات، کوئلے کی کان کنی کی مشینری، تھر کول فیلڈ کے لیے درآمد کیے جانے والے آلات پر 17فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔حکومت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت BMR یا بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں کے لیے مشینری، آلات پر 14ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا جبکہ BMRیا بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں کے لیے مشینری، آلات اور اسپیئرز پر 17فیصد جی ایس ٹی بھی عائد ہوگا جس سے 42ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ اسی طرح اسی مد میں نیوکلیئر یا قابل تجدید توانائی کے وسائل سے بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں پر 6ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس اور سولر انرجی کے ساتھ استعمال کی اشیا پر 12ارب روپے کے ٹیکس لاگائے جا رہے ہیں۔ 12
ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی۔ حتی کہ پی او ایس مشین کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا ۔
برآمد شدہ سامان جو ایک سال کے اندر درآمد کیا جاتا ہے اس پر 3 ارب روپے کے ٹیکس عائد ہوں گے۔موبائل فون کے مقامی مینوفیکچررز کی طرف سے موبائل فون کی تیاری کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر 17% جی ایس ٹی لگے گا۔
سمندر پار پاکستانیوں اور سیاحوں کی جانب سے درآمد کیے جانے والے ذاتی ملبوسات اور سامان، پر بھی ٹیکس لگے گا۔زیرو ریٹڈ سیکٹر سے بھی سیلز ٹیکس چھوٹ مکمل ختم کئے جانے کا امکان ہے۔
سیلز ٹیکس 17فیصد سے کم والی اشیا پر بھی سیلز ٹیکس 17فیصد تک کئے جانیکا امکان ہے جبکہ مخصوص شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ بھی ختم ہو سکتی ہے تاہم کھانے پینے کی اشیا اورادویات پر ٹیکس چھوٹ برقرار رہے گی، لگژری اشیا کی درآمد اوردرآمدی گاڑیوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی سفارش ہے، ٹیکس وصولی ہدف 5829ارب روپے سے بڑھا کر 6ہزار 100ارب کرنے کی تجویز ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس ریفائنری سٹیج پر لاگو ہوگا۔غیر ملکی ڈراموں کی درآمد پر بھی ایڈوانس ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔
ضمنی مالیاتی بل میں اکانومی کو ڈیجیٹائز کرنے کیلئے اقدامت تجویز کیے گئے ہیں، سرکاری عہدہ رکھنے والوں کی ٹیکس تفصیل پبلک کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ ریئل اسٹیٹ کے شعبے کو دی گئی رعایت جاری رکھنے کی تجویز ہے۔
خصوصی سکیورٹی اداروں کیلئے 50 ارب روپے کی گرانٹس ختم کی جا رہی ہے۔ترمیمی فنانس بل میں کسٹمز، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس قوانین میں ترامیم کر کے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر)کلکٹر کے اختیارات کم کیے جارہے ہیں۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کے خلاف قومی احتساب بیورو(نیب)اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے)تحقیقات کر سکیں گے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کرکے اسے پانچ سال تک بڑھا دیا گیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کومزید پانچ سال کیلئے توسیع دیے جانے کی شق بھی بل کا حصہ ہے جبکہ پالیسی و کوآرڈینیشن بورڈ کو تحلیل کر دیا جائے گا۔